Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’تنخواہ بڑھائی جائے‘ کوئٹہ میں سرکاری ملازمین کا دھرنا جاری

کوئٹہ میں بلوچستان حکومت کے ہزاروں ملازمین نے بجٹ سے قبل تنخواہوں میں پچیس فیصد اضافے کے لیے دھرنا دے رکھا ہے۔
گورنر، وزیر اعلیٰ ہاؤس اور سول سیکریٹریٹ کے قریب کوئٹہ کے مرکزی علاقے عبدالستار ایدھی چوک پر چار روز سے جاری احتجاج کی وجہ سے نہ صرف بلوچستان بھر کے سرکاری دفاتر میں کام ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے بلکہ کوئٹہ میں ٹریفک کی روانی اور معمولات زندگی بھی بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔
احتجاج کی وجہ سے پولیس نے شہر کی کئی شاہراہوں کو بند کر رکھا ہے جس کی وجہ سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوگیا ہے اور لوگو ں کو ہسپتالوں، دفاتر اور بازار تک پہنچنے میں منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرنا پڑ رہا ہے۔
بلوچستان ایمپلائز اینڈ ورکرز گرینڈ الائنس کی کال پر ہونے والے اس احتجاج میں ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل سٹاف ،اساتذہ اور سول سیکریٹریٹ کے اہلکاروں اور افسران سمیت صوبے کے 36 سرکاری محکموں کے ملازمین شریک ہیں۔
بلوچستان ایمپلائز اینڈ ورکرز گرینڈ الائنس کے کنوینر عبدالمالک کاکڑ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہم نے کوئٹہ میں سول سیکریٹریٹ سمیت بیشتر سرکاری دفاتر کو بند کر رکھا ہے جبکہ تمام ضلعی اور ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں بھی احتجاج کیا جا رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہسپتالوں میں صرف ایمرجنسی سروسز فراہم کی جا رہی ہیں ۔ حکومت نے 17 نکاتی مطالبات تسلیم نہ کیے تو اگلے مرحلے میں ہسپتال، کالجز اور سکول بھی بند کردیے جائیں گے۔‘
عبدالمالک کاکڑ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں دو لاکھ بائیس ہزار سے زائد سرکاری ملازمین ہیں جو لاکھوں خاندانوں کی کفالت کرتے ہیں۔‘
’سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں گذشتہ کئی برسوں سے اضافہ نہیں کیا گیا جبکہ مہنگائی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ ایسی صورت میں ملازمین کے لیے اپنے اخراجات پورا کرنا مشکل ہو گیا ہے۔‘
دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے ملازمین کے احتجاج پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’پی ڈی ایم کی طرر پر احتجاج کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ صوبائی حکومت پہلے ہی مالی مشکلات کا شکار ہے۔ تنخواہوں میں اضافے کے نتیجے میں صوبائی خزانے پر سالانہ 15 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ اس صورت میں ترقیاتی بجٹ متاثر ہوگا۔‘

ملازمین کا کہنا ہے کہ ’مہنگائی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اس لیے تنخواہیں بڑھائی جائیں‘ (فوٹو: اے ایف پی)

خیال رہے کہ بلوچستان حکومت کو 87 ارب روپے کے بجٹ خسارے کا سامنا ہے۔ 465 ارب روپے کے سالانہ صوبائی بجٹ میں غیر ترقیاتی اخراجات یعنی تنخواہوں کی مد میں 309 ارب روپے خرچ ہوتے ہیں۔
تاہم بلوچستان ایمپلائز اینڈ ورکرز گرینڈ الائنس کے کنوینر عبدالمالک کاکڑ کہتے ہیں کہ ’بلوچستان حکومت صرف بہانے بنا رہی ہے۔ نئے مالی سال شروع ہونے میں صرف چار ماہ باقی رہ گئے ہیں حکومت ابھی تک ترقیاتی بجٹ کا صرف پندرہ فیصد ہی خرچ کرپائی ہے۔‘
بلوچستان حکومت نے احتجاج کے بعد تنخواہوں پر غور کرنے کے لیے سرکاری محکموں کے سیکریٹریز پر مشتمل 10 رکنی کمیٹی تشکیل د ے رکھی ہے۔
دوسری جانب بلوچستان میں زمیندار اور کسان بھی سراپا احتجاج ہیں۔ زمیندار ایکشن کمیٹی کی اپیل پر بجلی کی بندش کے خلاف بلوچستان میں جمعرات کی صبح 16 مقامات پر دھرنے دے کر قومی شاہراہیں بند کی گئیں۔

عبدالستار ایدھی چوک پر چار روز سے سرکاری ملازمین کا دھرنا جاری ہے (فوٹو: آئی این پی)

زمیندار ایکشن کمیٹی کے چیئرمین رکن بلوچستان اسمبلی ملک نصیر احمد شاہوانی کا کہنا ہے کہ ’کیسکو کی جانب سے دیہی اور زرعی علاقوں میں ایک ایک ہفتے تک بجلی بند کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے زمینداروں کی فصلیں تباہ ہو رہی ہیں۔‘
گذشتہ چند ماہ کے دوران چار مرتبہ کئی دنوں تک مسلسل بجلی بند رکھی گئی جس کی وجہ سے زمیندار فصلوں کو پانی نہیں دے سکے۔ کیسکو کے اس اقدام کی وجہ سے گندم ،ٹماٹر، پیاز اور آلو کی فصل کو شدید نقصان پہنچا ہے۔‘
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ملک نصیر شاہوانی کا کہنا تھا کہ ’کیسکو اور بلوچستان حکومت کے درمیان سبسڈی اور واجبات کی ادائیگی کا تنازع چل رہا ہے۔ کیسکو حکومت کی جانب سے واجبات ادا نہ کرنے کی سزا زمینداروں کو بجلی بند کرکے دے رہی ہے حالانکہ زمیندار چھ سے دس ہزار روپے فی ٹیوب ویل کے حساب سے باقاعدگی سے بل ادا کررہے ہیں۔‘

شیئر: