لاڑکانہ سے ’لاپتہ‘ ہندو لڑکی کا عدالت میں مذہب تبدیل کرکے شادی کرنے کا بیان
جمعہ 9 اپریل 2021 20:57
توصیف رضی ملک -اردو نیوز- کراچی
ایس پی نے کہا کہ ’لڑکی نے عدالت میں جج کے سامنے 164 کا بیان بھی دیا ہے کہ ان پر کوئی دباؤ نہیں تھا‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
سندھ کے شہر لاڑکانہ سے چند روز قبل لاپتہ ہونے والی 22 سالہ لڑکی آرتی بائی کو لاڑکانہ پولیس نے ڈھونڈ کر جمعہ کو مقامی عدالت کے سامنے پیش کر دیا۔
لڑکی نے جج کے روبرو بیان دیا کہ ’انہوں نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کرنے کے بعد کراچی کے نوجوان تاجر سے نکاح کرلیا ہے۔‘
لاڑکانہ کے ایس پی احمد فیصل چوہدری نے مقامی صحافیوں کو بتایا کہ ’پولیس نے چھ دن کے اندر لڑکی کا سراغ لگایا اور اسے اس کے مبینہ شوہر کے ساتھ عدالت میں پیش کیا۔‘
اس موقع پر لڑکی کے گھر والے، رشتہ دار اور ہندو برادری کے افراد ان سے ملنے کے لیے عدالت میں سراپا احتجاج رہے، تاہم عدالت نے لڑکی کو دارالامان بھیج دیا ہے۔
رتی بائی کے مبینہ شوہر فواد نے عدالت کے روبرو بیان دیا کہ ’رتی بائی نے کراچی میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہو کر پہلے اپنا مذہب تبدیل کیا اور مسلمان ہوئیں اور اپنے لیے عائشہ نام منتخب کیا جس کے بعد انہوں نے شادی کی۔‘
فواد نے عدالت سے استدعا کی کہ ’عائشہ نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے اور اب وہ اپنے گھر واپس نہیں جانا چاہتی، پھر بھی پولیس انہیں کراچی سے لاڑکانہ لے آئی‘ تاہم اس موقع پر ان کی جانب سے عدالت میں عائشہ کے تبدیلی مذہب اور نکاح کے حوالے سے کوئی دستاویزی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔
دوسری جانب آرتی کے والد ڈاکٹر نمومل کی جانب سے اپنی بیٹی کے اغوا کا پرچہ تھانہ علی گوہر آباد میں درج کروایا گیا، جبکہ پولیس کی جانب سے نومسلم لڑکی عائشہ کے ہندو والدین کو لڑکی سے نہ ملنے دینے پر ہندو برادری عدالت میں سراپا احتجاج رہی۔
لاڑکانہ میں تھرڈ جوڈیشل مجسٹریٹ وقار احمد جونیجو نے نومسلم لڑکی عائشہ کو دارالامان بھیجنے جبکہ شوہر محمد فواد کو پولیس تحویل میں دینے کے احکامات جاری کیے۔
نو مسلم لڑکی عائشہ کی جانب سے دارالامان کے بجائے کراچی واپس بھیجنے کی استدعا کی گئی جس پرعدالت نے پولیس کو عائشہ کو محفوظ مقام پر رکھنے کے احکامات جاری کیے۔
ساتھ ہی عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ فریقین میں سے کسی ایک کی جانب سے درخواست دینے پر ہی عدالت اب اگلی سماعت کرے گی۔
بعد ازاں، اے ایس پی احمد فیصل نے لاڑکانہ میں مقامی صحافیوں کو بتایا کہ ’لڑکی نے بیان دیا ہے کہ اس کا ایک ہفتے پہلے ہی ملازمت کے سلسلے میں کراچی کے محمد فواد سے رابطہ ہوا تھا۔‘ لڑکی نے بتایا کہ وہ ایک ہفتے قبل نوکری کے لیے کراچی گئی تھی جہاں ان کی فواد سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے جج کے سامنے پیش ہو کر مذہب تبدیل کرکے شادی کی۔‘
’لڑکی نے عدالت میں جج کے سامنے 164 کا بیان بھی دیا ہے کہ ان پر کوئی دباؤ نہیں تھا۔‘
احمد فیصل نے کہا کہ ’عدالت کی جانب سے لڑکی کو تین دن کے لیے دارالامان بھیجنا دراصل اسے سوچ بچار کی مہلت دینا ہے۔ دارالامان سٹیٹ کی جانب سے غیرجانبدار اور محفوظ مقام ہے جہاں پر کسی بھی فریق کی جانب سے لڑکی پر دباؤ نہیں ڈالا جا سکے گا۔
اے اس پی نے بتایا کہ ’لڑکی کے مبینہ شوہر فواد کو بھی پولیس تحویل میں رکھا گیا ہے اور اس سے تفتیش جاری ہے۔‘
انہوں نے واضح کیا کہ ’لڑکی کی جانب سے عدالت میں مسلمان ہونے کا ثبوت اور نکاح نامہ پیش نہیں کیا گیا تبھی عدالت نے لڑکی اور لڑکے کو الگ رکھا ہے۔‘ لڑکے کو عدالت نے تین روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا ہے۔