Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تعلیم،کئی خاندانوں کے چراغ روشن کرنیوالی اُمید

 
بچے غریب کے ہوں یا امیر کے، سب میں تخلیقی صلاحیتیں ابھارنا ضروری ہے
 
عنبرین فیض احمد ۔۔ ریاض
 
ایک مشہور انگریزی محقق کا قول ہے کہ ایک اچھاا ستاد وہ ہوتا ہے جو اپنے طلباءکے سامنے وضاحت کرے ، ایک بہتراستاد وہ ہوتا ہے جو مظاہراتی انداز سے توضیح و تشریح کرکے پڑھاتا ہو لیکن ایک بہترین استاد وہ ہے جو طلباءکے اندر تخلیقی تحریک پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہو۔ا یک قابل اور لائق استاد کا فریضہ یہی ہوتا ہے کہ اپنے طلباءمیں تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرے اور ان کے اندر تعلیمی روح پھونکنے کی کوشش کرے تاکہ وہ خود بخود تعلیم کی طرف کھینچے چلے آئیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاہمارے ملک میں ایسے تربیت یافتہ اساتذہ موجود ہیں جو طلباءکے اندر تخلیقی تحریک پیدا کرسکیں؟ 
بچے ہمارے معمارانِ مستقبل ہیں خواہ وہ غریب کے بچے ہوں یا امیر کے، سب میں تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنا بہت ضروری ہے اور یہ ہمارا اخلاقی فرض بھی ہے کیونکہ یہ سب ہی ہمارے ملک کا اثاثہ ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ملک میں سرکاری ، نیم سرکاری اور نجی اسکولوں میں تعینات اساتذہ کی زیادہ تر تعداد غیر تربیت یافتہ ہوتی ہے اور ایسے غیرتربیت یافتہ اساتذہ، طلباءکے ذہنی و جذباتی احساسات کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔یہ بھی ہمیں بخوبی علم ہے کہ ترقی یافتہ دور میں آگے بڑھنے کے لئے تعلیم و تربیت اور علم و عمل ، وہ واحد سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر ہم اپنا مقصد حاصل کرسکتے ہیں۔ اسی لئے ہر حکومت تعلیم جیسے شعبے پر خصوصی توجہ دیتی ہے ۔ تعلیم کی شرح میں اضافے کے بغیر معاشرے کی تعمیر و ترقی اور ملک میں معاشی بہتری ناممکن ہے ۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں تعلیمی پالیسی اور منصوبوں پر حکومت کی کوئی خاص توجہ نہیں جس کے منفی اثرات ہماری معاشی،سماجی اور اخلاقی صورتحال پرمرتب ہو رہے ہیں ۔ وطن عزیز میں ایک جانب تعلیمی معیار ، سرکاری اسکولوں اور جامعات کی حالت ناگفتہ بہ ہے تو دوسری جانب چھوٹے شہروں، دیہات ، قصبوں اور دوردراز کے علاقوں میں اسکولوں کی عمارتوں کی حالت انتہائی خستہ ہے جو حکومتوں کی عدم توجہیی اور محکمہ تعلیم کے کرتا دھرتاو¿ں کی لاپروائی کا نتیجہ دکھائی دیتا ہے۔ 
اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ اساتذہ سرکاری اسکولوں میں مسلسل غیر حاضر ہوتے ہیں اور اپنی نجی سرگرمیوں میں مشغول ہونے سے ان کے تدریسی عمل معطل ہوتے ہیں مگر وہیں پر کئی اساتذہ صرف حاضری لگانے اور تنخواہ لینے کی حد تک اسکولوں کا حصہ ہوتے ہیں کیونکہ وہ دوسری جگہوں پر ملازمت کررہے ہوتے ہیںلیکن بعض اساتذہ سیاسی اثر و رسوخ کی بدولت اپنے فرائض بھی انجام نہیں دیتے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی بھی عمل نہیں لائی جاتی ہے ۔ 
یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ اکثر دیہات میں اسکولوں کے لئے نہ تو مناسب عمارتیں ہوتی ہیںاور نہ ہی اساتذہ ہوتے ہیں۔ وہاں اتنے اساتذہ بھی نہیں ہوتے کہ ہر جماعت میں بیک وقت ایک استاد موجود رہ سکے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زیادہ تر اسکولوں میں دو ، دو ، تین ، تین جماعتوں کے بچوں کو ایک ساتھ بٹھا کر پڑھایا جاتا ہے۔ دیکھنے میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مرغی خانے میں سارے چوزوں کو رکھ دیا گیا ہے جس سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتا کہ ہمارے ہاںتعلیم کو کس حد تک اہمیت دی جاتی ہے ۔شہروں اور دیہات میں اسکولوں کا قیام ، اساتذہ کی ٹریننگ اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نصاب تو بہت دور کی بات ، ہمارے ہاںدیہات اور قصبوں میں اسکول تعمیر کرنا مناسب ہی نہیں سمجھاگیا۔ ، دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ ہزاروں نجی اسکولوں کا جال شہروں میں بچھا ہوا ہے اور لوگ اپنے بچوں کو نجی اسکولوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ شہر میں گلی کے ہر موڑ پر ایک انگریزی اسکول کی عمارت کھڑی دکھائی دیتی ہے ۔ نجی اسکولوں کا یہ سسٹم بڑا ہی پرکشش اور منافع بخش کاروبار بن گیاہے۔ بڑے بڑے کاروباری حضرات اس میدان میں اتر آئے اور پھر مقابلے کی فضاءقائم ہوگئی۔ اساتذہ سرکاری اسکولوں کی بجائے نجی اسکولوں میں پڑھانے کو ترجیح دینے لگے۔ اچھے اور تجربہ کار اساتذہ کی مانگ بڑھتی چلی گئی اور سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کم سے کم ہوتے چلے گئے۔
جو تصویر شائع کی گئی وہ پاکستان کے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ ترقی یافتہ صوبے پنجاب کی ہے جس میں ایک سرکاری ، پرائمری اسکول دکھایا گیا ہے جو اسکول کے نام پر دھبہ ہے۔ یہاں نہ بچوں کےلئے پینے کا پانی ہے ، نہ فرنیچر نام کی کوئی چیز ، نہ ہی اسکول کے نام پر کوئی عمارت ۔وہ کھلے آسمان کے نیچے پلاسٹک کی چٹائیو ںپر بیٹھ کر تعلیم حاصل کررہے ہیں۔یہ انتہائی افسوس کا مقام ہے ۔ہم سب کے لئے یہ تصویر دیکھ کر اپنے ملک کی تعلیم کی زبوں حالی ہر دل بڑا رنجیدہ ہوا ۔اس طرح کے مناظر ہمارے ہاں اکثر دیکھنے کوملتے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں غریبوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔غریبوں کے نام پر بے شمار منصوبے بنائے گئے۔یوں اسکول تونہیں بن پاتے لیکن اسکولوں کے نام پرلوگ اپنی جیبیں ضروربھرلیتے ہیں۔اگر ایک آدھ اسکول بن بھی جائے تو وہاں پر نہ ہی استاد ہوتا ہے اور نہ کوئی شاگرد بلکہ اس عمارت میں گاﺅں کے وڈیروں اور جاگیرداروں کے جانور وں کی پرورش ہوتی ہے ۔
کسی بھی فلاحی ریاست کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ اپنے عوام کو روزگار ، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتیں فراہم کرے۔ وطن عزیز کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں تعلیم کا معیار بہتر نہیں حالانکہ دیکھا جائے تو تعلیم ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعے قوموں کی تقدیر بدلی جاسکتی ہے۔ تعلیم ایک ایسی امید ہے جس سے کئی خاندانوں کی امیدوں کے چراغ روشن ہوجاتے ہیں۔ گوکہ پاکستان میں شہروں میں تعلیمی نظام قدرے بہترہے لیکن ہماری تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے ہماری تعلیمی ضروریات پوری نہیں ہورہیں ۔جن جن شہروں میں ترقی کے آثار ہیں وہاں تو تعلیمی نظام ہے لیکن دیہات میں بچوں کی تعلیمی مشکلات بہت زیادہ ہیں۔ وہاں تعلیمی ادارے آسانی سے عوام کی پہنچ میں نہیں ۔گھوسٹ اسکولوں نے بھی ستیاناس کر رکھا ہے ۔ یہ غیر مرئی بدعنوانی کا مظہر ہیں۔ تعلیمی زبوں حالی کی بڑی وجہ ہمارے ملک میں دہراا نظام ِ تعلیم ہے اور یکساں نظامِ تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے معاشرے میں احساسِ کمتری بڑھتا جارہا ہے ۔ نتیجہ یہ ہوا ہے کہ غریب کا بچہ تعلیم سے دور بھاگ رہا ہے یعنی جی چراتا پھررہا ہے ، یہ بات ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ 
یہ بات تو طے ہے کہ پاکستان میں غریبوں کی پہنچ میں معیاری تعلیم تو کیا آئے گی کیونکہ ”غیر معیاری تعلیم“ بھی ان کی دسترس میں نہیں۔ روزبروز ہمارے نظامِ تعلیم میں گراوٹ آتی جارہی ہے ۔ اس گراوٹ کے پیچھے کئی وجوہ ہیں۔ یہ بات ہمیں سمجھنی چاہئے کہ ہم اس کی ذمہ داری صرف حکومت یا اساتذہ یا والدین پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہوسکتے لہٰذا اس سلسلے میں بہتری لانے کےلئے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ دنیا کہاں سے کہاں جارہی ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔تعلیمی میدان میں ہم پیچھے سے پیچھے ہوتے چلے جارہے ہیں، ہم پستی کی طرف رواں دواں ہیں ۔
٭٭٭٭٭٭

شیئر: