سعودی عرب میں افطار اور سحر کے دسترخوان اور رسم ورواج
سعودی عرب میں افطار اور سحر کے دسترخوان اور رسم ورواج
پیر 26 اپریل 2021 0:05
عالم اسلام میں رمضان المبارک کے ایام مختلف ممالک کی تہذیب وثقافت کے عکاس ہوتے ہیں۔ ممالک کی جدا ثقافت کی طرح کسی بھی ملک کے شہروں میں بھی اس ماہ کے دوران مختلف عادات دیکھنے میں آتی ہیں۔
سعودی عرب میں بھی تقریباً ہ رریجن اورشہرمیں معمولی اختلاف کے ساتھ افطار اور سحر کے لیے کیے جانے والے انتظامات اور رسم و رواج میں فرق ہوتا ہے۔
ریاض
سعودی عرب کے درالحکومت ریاض میں رمضان المبارک کے دوران مقامی رواج کے مطابق افطار دسترخوان پر عام طورپر آب زم زم ، کھجور ، لسی ، دھی اور عربی قہوہ ہوتا ہے ۔
افطاری کرنے کے بعد نماز مغرب کی ادائیگی کا اہتمام کیاجاتا ہے بعدازاں اہل خانہ دوبارہ دستر خوان کے گرد جمع ہو جاتے ہیں اور روایتی افطاری سے لطف اندوز ہوتے ہیں جس میں مقامی روایتی ڈش ’جریش‘ لازمی ہوتا ہے۔
یہ ڈش انڈیا اور پاکستان میں بہت شوق سے کھائی جانے والی حلیم سے مشابہہ ہے جس کی تیاری میں کٹی ہوئی گندم ، سفید چاول، مصالے اور گوشت شامل کیا جاتا ہے۔
اہل ریاض کے افطاری دسترخوان میں اب سموسے، لقمیہ اور مختلف قسم کے سلاد کا بھی اضافہ کیاگیاہے۔
سحری کی تیاری عشا کی نماز کے بعد سے ہرگھر میں شروع کر دی جاتی ہے جس میں بنیادی ڈش ’کبسہ‘ گوشت یا مرغی کی پلاو کے ساتھ دیگر کھانے بھی شامل کیے جاتے ہیں ۔
جدہ
اہل جدہ کی قدیم روایت کے مطابق ماہ مبارک کا آغاز ہوتے ہی یہاں کے گلی کوچے سج جاتے ہیں ۔ بازاوں کے علاوہ محلوں میں بھی چھوٹے چھوٹے سٹالز لگائے جاتے ہیں جہاں افطاری کے لیے انواع و اقسام کے کھانے اور اشیا فروخت کی جاتی ہیں۔
اہل جدہ کی ایک خاص روایت رمضان المبارک کے دوران ’چھولے ‘ جسے عربی میں بلیلہ کہا جاتا ہے کے علاوہ بھنی ہوئی کلیجی کے اسٹال لگانا بھی شامل ہے۔
رمضان المبارک کے حوالے سے مکہ ریجن میں چھولے اور کلیجی کے اسٹال اس قدر مشہور ہوتے ہیں کہ اس کی تیاری اور بلدیہ و دیگر اداروں سے لائسنس حاصل کرنے کے مراحل کا آغاز رمضان المبارک سے دو ماہ قبل ہی شروع کر دیا جاتا ہے۔
سٹالز پر خصوصی طورپر رنگ برنگی لائٹیں لگائی جاتی ہیں جبکہ کلیجی کے سٹال پر بڑے توے پر کلیجی بھنی جاتی ہے۔
جدہ اور مکہ کے ہربڑے بازار اور چوک کے علاوہ گلی محلوں میں بھی یہ سٹال رمضان سے جڑی روایت کا ایک حصہ ہیں جوبرسوں سے چلی آ رہی ہے۔
قصیم
قصیم ریجن میں افطاری اور سحری کا دسترخوان پر گھر کے تمام افراد جمع ہوتے ہیں۔ افطاری دسترخوان میں قصیم کی کھجوریں اور عربی قہوہ لازمی جزو مانا جاتا ہے جبکہ خاندان کے لوگ عشا اور تراویح کے بعد جمع ہو کرقہوہ کے ساتھ کھجور کھا کر دیر گئے تک تبادلہ خیال کرتے ہیں۔
قصیم میں ایک قدیم روایت مسافروں کو افطار کرانے کی ہے ۔ اس حوالے سے لوگ افطاری پیکٹس لے کرچوراہوں پرکھڑے ہوتے ہیں اور ہر آنے والے کو افطاری پیکٹس دیتے ہیں جن میں کھجور، جوس ، تکونہ سموسہ (قیمہ یا پنیر کا بنا ہوا) کے علاوہ عربی مٹھائی جسے ’بسبوسہ ‘ کہتے ہیں ہوتا ہے۔
جس طرح پاکستان میں نوجوان رمضان المبارک کی راتوں کو ٹینیس یا کرکٹ کے نائٹ میچز کھیلتے ہیں اسی طرح اہل قصیم بھی رمضان میں رات کے اوقات میں مختلف قسم کے کھیل کھیلتے ہیں جن میں ہینڈ بال ، کیرم بورڈ، فٹ بال وغیرہ شامل ہے۔
طائف
اہل طائف کا استقبال رمضان اور تیاریوں کے حوالے سے اختیار کیاجانے والا انداز قدرے مختلف ہوتا ہے ۔ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی شہر کے مختلف مقامات پراستقبال رمضان کے حوالے سے بورڈز آویزاں کردیتے ہیں جبکہ بازاروں کو رمضان کے فانوس اورقمقموں سے سجایا جاتا ہے۔
طائف کی خاندانی راویات کے مطابق ماہ رمضان کا پہلا روزہ خاندان کے سب سے بڑے فرد کے یہاں کھولا جاتا ہے اس کے بعد دوسرے افراد اپنے گھرمیں افطار دسترخوان سجاتے ہیں۔
افطاری کے لیے طائف میں دسترخوان پر روایتی کھانے اور مشروبات جن میں سموسے اور چھولے لازمی ہوتے ہیں اس کے علاوہ ’سوبیا‘ اور دیگر جوسز اہل طائف خاص طورپر رمضان میں کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔
مدینہ منورہ
اہل مدینہ منورہ کی بڑی تعداد رمضان المبارک میں افطاری دسترخوان مسجد نبوی میں لگاتی ہے یہ روایت برسوں سے ہے۔ مسجد نبوی کے اندر دسترخوان لگانے کےلیے مسجد کی انتظامیہ سے باقاعدہ اجازت نامہ حاصل کرنا پڑتا ہے اور اجازت نامے کے مطابق ہر شخص اپنی الاٹ کی گئی جگہ پرہی دسترخوان لگاسکتا ہے۔
مسجد نبوی میں روزہ داروں کو افطار کرانے اور اپنے دسترخوان پر بلانے کے لیے خصوصی طور پر کارکنوں کی خدمات حاصلی کی جاتی ہیں جو مسجد کے بیرونی صحنوں تک گھومتے ہیں اور ہر آنے والے کو بڑی ہی عزت و تکریم کے ساتھ اپنا مہمان بننے کی درخواست کرتے ہیں۔
یہ کارکن روزہ داروں کو اپنے دسترخوان تک پہنچا کر دوسرے روزہ داروں کی تلاش میں نکل جاتے ہیں۔ مسجد نبوی میں افطاری کرنے کےارادے سے جو جاتا ہے اسے راستے میں دسیوں افراد انتہائی انکساری و عاجزی سے یہ کہتے ملتے ہیں کہ ’ہمیں عزت افزائی کا موقعہ دیں اور ہمارے ساتھ افطار کریں‘ ۔
اہل مدینہ کے افطاری دسترخوان پر کھجور ، روٹی اور ’دقہ‘ (چاٹ مصالحے کی طرح کا ایک مخصوص مصالہ ہوتا ہے جس میں تل خصوصی طورپرشامل کیے جاتے ہیں اور یہ مصالہ دھی اور کھجور کے ساتھ ملا کرکھایا جاتاہے ، اس مصالہ کی خصوصیت یہ ہے کہ پیاس کی شدت اور دہی کی کھٹاس کو کم کرتا ہے) لازمی ہوتا ہے۔
مشرقی ریجن
مشرقی ریجن میں رہنے والے استقبال رمضان کی روایات پر آج بھی اسی طرح قائم ہیں جیسے انکے اجداد قائم تھے۔ ریجن کی روایت کے مطابق رمضان المبارک کا چاند دیکھتے ہی خاندان کے بزرگ کے یہاں پہنچ کر مبارک باد دی جاتی ہے اور گھروں کو حرمین شریفین کی تصاویر سے سجایا جاتا ہے۔
مشرقی ریجن خاص کر الاحسا کے باشندے صدیوں سے قائم ایک روایت ’النقصہ‘ پر آج بھی قائم ہیں ۔ نقصہ روایت دراصل اپنی افطاری پڑوسیوں کے ساتھ بانٹنے کی ہے ۔ یہ روایت الاحسا علاقے کی پہچان بھی مانی جاتی ہے ۔