Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایرانی جوہری معاہدے پر بات چیت میں پیش رفت

مذاکرات میں چین، جرمنی، فرانس، روس اوربرطانیہ کے سفارت کار موجود تھے۔(فوٹو وال سٹریٹ)
امریکہ کو ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں واپس لانے پر ویانا میں اجلاس منعقد کیا گیا۔ جس میں چین، جرمنی ، فرانس ، روس اور برطانیہ کے اعلیٰ سفارت کاروں کے مابین ہونے والے مذاکرات میں اس معاہدے پر توجہ مرکوز کی گئی۔
اے پی نیوز ایجنسی کے مطابق سنیچر کو ہونے والے ان مذاکرات کے بعد کہا گیا ہے کہ مستقبل کے کسی معاہدے کے لئے انہیں مزید کام اور وقت درکار ہوگا۔
روس کے اعلیٰ نمائندے میخائل الیانوف نےاپنے ٹویٹ میں کہا ہےکہ مشترکہ جامع منصوبہ عمل ( جے سی پی او اے) کے اراکین نے کہا ہے کہ ایٹمی معاہدے کی بحالی کے بارے میں ویانا مذاکرات میں غیر متنازعہ پیشرفت دیکھی گئی ہے۔
 
میخائل الیانوف نے  ٹویٹ میں لکھا ہے کہ مشترکہ کمیشن اگلے ہفتے کے آخر میں دوبارہ اجلاس کرے گا۔
اس دوران ماہرین مستقبل کے معاہدے کا مسودہ تیار کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے ۔
ویانا میں ہونے والی سفارتکاروں کی اس  ملاقات کے دوران  امریکہ کا کوئی نمائندہ موجود نہیں تھا۔
 امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 کے معاہدے سے امریکہ کو  اس معاہدے سے علیحدہ کر لیا تھا۔
ٹرمپ نے ایران کو معاہدے پر دوبارہ مذاکرات کے لیے مزید اضافے کے ساتھ پابندیاں بھی دوبارہ عائد کر دی تھیں۔
نومنتخب امریکی صدر جو بائیڈن دوبارہ اس معاہدے میں شامل ہونا چاہتے ہیں ۔اسی لئے ویانا میں امریکی وفد ایران کے ساتھ بالواسطہ بات چیت میں حصہ لے رہا تھااور دوسری عالمی طاقتوں کے سفارت کارثالثی کردارادا کر رہے تھے۔
موجودہ اور سابق امریکی عہدیداروں کے مطابق بائڈن انتظامیہ ایران کو جوہری معاہدے پر واپس لانے کے لئے ٹرمپ دور کی بعض انتہائی سخت پابندیاں ہٹانے پرغور کررہی ہے۔
میخائل الیانوف نے کہا ہے کہ جے سی پی او اے کے ممبران نے مذاکرات کو آگے بڑھانے سے قبل امریکی وفد کے عہدیداروں سے ملاقات کی لیکن ایرانی وفد امریکی سفارت کاروں سے ملاقات کے لئے تیار نہیں۔
جوہری معاہدے میں ایران کو اپناجوہری پروگرام روکنے کے عوض معاشی مراعات دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

ایٹمی معاہدے کی بحالی کے بارے میں غیر متنازعہ پیشرفت دیکھی گئی ہے۔(فوٹو عرب نیوز)

امریکی پابندیوں کے نفاذ نے ایرانی معیشت کو متزلزل کر دیا ہے۔ تہران نے جوابی طور پر اس معاہدے میں عائد پابندیوں کی خلاف ورزیوں میں مستقل طور پر اضافہ کردیا ہے جن میں افزودہ یورینیم کی تلخیص اور اس کے ذخیرے کو بڑھانا شامل ہے ۔
واضح رہے کہ اس معاہدے کا حتمی مقصد ایران کو ایٹم بم بنانے سے روکنا ہے تاہم ایران اس امر پر زور دیتا ہے کہ وہ ایٹم بم  نہیں بنانا چاہتا ۔
ایران کے پاس ایٹم بم بنانے کے لئے اس وقت کافی افزودہ یورینیم موجود ہے  جب کہ جوہری معاہدے پر دستخط ہونے سے قبل اس کے پاس یورینیم کی اتنی مقدار نہیں تھی۔
ویانا میں ہونے والے مذاکرات کا آغاز اپریل کے شروع میں ہوا تھا۔ اس سلسلے میں اعلیٰ سطح کے متعدد اجلاس بلائے گئے ہیں۔

امریکی پابندیوں کے نفاذ نے ایرانی معیشت کو متزلزل کر دیا ہے۔(فوٹو عرب نیوز)

ماہر گروپس امریکی پابندیوں اور ایران کی جانب سے تعمیل کے ساتھ ساتھ معاہدے پر امریکی واپسی کی ممکنہ ترتیب کے معاملات کو حل کرنے کے لئے بھی کام کر رہے ہیں۔
ویانا میں ہونے والے ان مذاکرات کے علاوہ بھی دیگر چیلنجز پر کام ہو رہا ہے۔
قبل ازیں ایران کے  جوہری تنصیبات پر حال ہی میں ایک حملہ بھی ہوا تھا جس میں کافی حد تک نقصان کی بھی اطلاعات تھیں۔اس کے بارے میں ایران کی جانب سے شبہ کیا گیا تھا  کہ یہ حملہ اسرائیل نے کیا ہے۔
تہران نے جوابی اقدام کرتے ہوئے یورینیم کی افزودگی کا آغاز کر دیا جو اب تک کی بلند ترین سطح ہے۔
 

شیئر: