’سعودی عرب اور پاکستان مسلم امہ کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں‘
’سعودی عرب اور پاکستان مسلم امہ کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں‘
اتوار 9 مئی 2021 10:19
سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ ’وہ وزیراعظم عمران خان کے خطے کی سکیورٹی اور خوشحالی کے وژن کے معترف ہیں (فائل فوٹو: ایس پی اے)
سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا حالیہ دورہ دونوں بردار ممالک کے لیے نہایت تاریخی ہے اور اس دورے میں معاشی تعاون، علاقائی و عالمی چیلنجز، ماحولیاتی تبدیلیوں اور اسلامو فوبیا سمیت کئی امور پر بات چیت کی گئی ہے۔
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے پاکستان کے سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی کو خصوصی انٹرویو میں دونوں ممالک کے درمیان اعلی سطح کی رابطہ کونسل کے قیام کے بارے میں کہا کہ ’کواڈرنیشن کونسل کے حوالے سے معاہدہ نہایت اہم ہے۔ برادر ممالک کے طور پر ہمارا تعلق بہت مضبوط ہے لیکن ہم ان تعلقات میں تمام مواقع سے فائدہ نہیں اٹھا پا رہے۔ یہ کونسل تعلقات کو ادارہ جاتی سطح پر لائے گی۔‘
’ہمیں یقین ہے کہ ہر حکومتی سطح پر ہم ان تمام موجود مواقعوں سے فائدہ اٹھائیں گے، تعلقات کو تقویت دینے کے لیے، چاہے وہ سیاسی یا سکیورٹی تعاون ہو لیکن سب سے اہم معاشی تعاون میں۔‘
انہوں نے کہا ہم سمجھتے ہیں کہ’ ہم نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان معاشی تعاون کے امکان سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا۔ اس لیے یہ کونسل نہایت اہم ہے۔‘
سعودی ولی عہد کے مستقبل میں دورہ پاکستان کے امکانات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے گذشتہ دورہ پاکستان کو بہت شوق سے یاد کرتے ہیں۔ یہ ان کے پسندیدہ دوروں میں سے ایک ہے۔ وہ پاکستان جانے کے منتظر ہیں لیکن ابھی اس حوالے سے مشاورت ہونی ہے۔ لیکن ہم امید کرتے ہیں کہ اگلے سال ہم ان کے دورے کا اہتمام کریں گے۔‘
اس حوالے سے انہوں نے مزید کہا کہ ’اس دوران ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ دونوں جانب وزارتی سطح پر دورے ہوں تاکہ وہ تسلسل برقرار رہے جو وزیراعظم کے اس دورے کی وجہ سے بنا ہے۔ اور یہ تسلسل برقرار رہے جب تک دو طرفہ قیادت کی سطح کا ایک اور دورہ نہ ہو جائے۔‘
سعودی وزیر خارجہ نے وزیراعظم عمران خان کی او آئی سی کے تحت اسلامو فوبیا کے خلاف آواز اٹھانے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ او آئی سی نہایت اہم ہے، یہ دنیا کی دوسری بڑی کثیر الجہتی تنظیم ہے۔ ہمیں اسے اسلامو فوبیا سمیت تمام مسائل کے خلاف استعمال کرنا چاہیے۔ اسلامو فوبیا بہت ہی خطرناک رحجان اور بہت خطرناک مظاہر ہے، جیسے کسی بھی دوسرے عقائد کے خلاف امتیاز سے ہوتا ہے۔‘
’ہمیں اس ہر تشویش ہے اور پاکستان نے تمام دنیا کو تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تقریر بعض اوقات نہ صرف لوگوں کو تکلیف دیتی اور نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ یہ عدم استحکام کی طرف بھی لے جاتی ہے۔ گلوبل کمیونٹی میں رہنے والے ہم سب کے درمیان لازمی طور پر مکالمہ ہونا چاہیے۔ اس مسئلے پر ہم پاکستان کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔‘
سعودی عرب میں قید پاکستانیوں کے حوالے سے سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ ’اس حوالے سے کام جاری ہے۔ ایجنسیاں اپنی بہترین کوشش کر رہی ہیں کہ اس حوالے سے ضابطہ کار جلد ہی مکمل ہو جائیں۔‘
اس سوال پر کہ پاکستان اور سعودی عرب کیسے گرین مڈل ایسٹ اور گرین سعودی عرب منصوبوں کے حوالے سے مشترکہ طور پر کام کر سکتے ہیں، پر شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ ’ہم نے ان اقدامات کا اعلان کیا ہے جو عالمی موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں ہمارا حصہ ہے۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ پاکستان نے اس حوالے سے پہلے ہی کافی کام کیا ہے اور کئی کروڑ درخت لگائے ہیں۔ میں سمجھتا ہو اس حوالے سے اکٹھے کام کر کے ہم ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیاں ایک موقع ہے کہ ہم سب مل کر کام کریں اور ایک دوسرے کو جوڑیں۔ ہمارے جو تعلقات ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایسے امور میں شراکت کر سکتے ہیں جس کا عالمی اثر پڑتا ہے۔‘
دو طرفہ تجارت اور سعودی عرب میں پاکستانی مزدوروں کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر فیصل بن فرحان السعود کا کہنا تھا کہ ’جیسے میں پہلے بھی کہہ چکا ہے اس دورے اور دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات کا بنیادی مقصد معاشی تعلقات ہیں۔ اور دونوں ممالک کے درمیان سرمایہ کاری کا سازگار ماحول بنانا ہے۔‘
’ہم نے حال ہی میں لیبر کے حوالے سے اصلاحات متعارف کروائی ہیں۔ یہ سعودی عرب میں کام کرنے والے پاکستانیوں کے لیے خوشحالی تلاش کرنے کا ایک موقع ہے۔‘
سعودی وزیر خارجہ نے افغانستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’افغانستان نہ صرف پاکستان اور اس کے پڑوس کی سلامتی کے لیے اہم ہے بلکہ یہ ہماری سلامتی اور عالمی سلامتی کے لیے بھی اہم ہے۔ پاکستان افغانستان کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے نہایت اہم کردار ادا کر رہا ہے۔‘
’یقیناً ہم اپنے ساتھیوں اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر کام کریں گے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ہم افغانستان کے استحکام اور خوشحالی کی منزل تلاش کرنے میں مدد کرنے کے قابل ہیں۔‘
انڈیا کے حوالے سے شہزادہ فیصل بن فرحان کا کہنا تھا کہ انڈیا کے ساتھ تعلقات پر، حال ہی میں تناؤ میں کمی اور سیزفائر پر واقعی داد دینا چاہوں گا۔ یہ صحیح سمت میں ایک بہترین اقدام ہے۔
’ہم اس عمل کی حوصلہ افزائی کے لیے کام کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ دونوں (ممالک) کے مابین کشیدگی کم ہوتی رہے۔‘
سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ ’ہمارے انڈیا کے ساتھ اچھے تعلقات بڑھ رہے ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ اس نقطہ نظر سے ہم کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ہر شخص کی مدد کر سکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے نقطہ نظر سے تمام پالیسیوں میں بنیادی زور کسی بھی قوم کے عوام کی خوشحالی کے فروغ پر ہونا چاہیے۔‘
’میں سمجھتا ہوں کہ یہ پاکستان کی ترجیح ہے اور پاکستانی قیادت اور عمران خان کی اس جانب پوری توجہ ہے کہ خطہ محفوظ رہے کیونکہ اسی سے وہ اس سے وہ استحکام آ جائے گا جو ملکی معیشت کو ترقی دینے کے لیے ضروری ہے۔‘
شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ ’ہم اس کو یقینی بنانے کے لیے جو بھی تعاون کر سکتے ہیں وہ کریں گے۔‘