Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’جدید ہتھیاروں سے لیس‘ جنوبی پنجاب کا لادی گینگ کون ہے؟ 

پولیٹکل اسسٹنٹ حمزہ سالک کے مطابق لادی گینگ گزشتہ 10 سالوں سے متحرک ہے. (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے جنوبی علاقے ڈیرہ غازی خان میں ہونے والے دوہرے قتل کے واقعے کے بعد پولیس اور بارڈر ملٹری فورسز کا جوائنٹ آپریشن لادی گینگ کے خلاف جاری ہے۔
ڈی جی خان کے قبائلی علاقے میں لادی گینگ نے تین افراد کو اغوا کرنے کے بعد دو کو بے دردی سے قتل کر دیا جبکہ ایک اب بھی ان کے قبضے میں ہے۔ 
واقعے کے بعد پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار جو پہلے ہی سے ملتان کے دورے  پر جانے والے تھے انہوں نے اس واقعے کا نوٹس لے لیا اور پولیس حکام کو ملتان پہنچنے سے پہلے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔
وزیراعلیٰ ہاؤس کے مطابق ابتدائی رپورٹ ملنے کے بعد وزیر اعلی نے گینگ کے خلاف آپریشن کا حکم جاری کیا جو آخری اطلاعات آنے تک جاری ہے۔
وزیراعلیٰ کے احکامات کے مطابق تیسرے مغوی شخص کو زندہ بازیاب کروانے کی ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں۔  
علاقہ مکینوں کے مطابق ’رمضان، خیر محمد اور عارف نامی تین افراد اپنے گھر پر موجود تھے جب لادی گینگ نے ان کے گھر کا گھیراؤ کر لیا۔ دونوں طرف سے بڑی دیر تک فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا جس کے بعد گھر میں موجود تینوں افراد کے پاس گولیاں ختم ہو گئیں۔‘
علاقہ مکینوں نے بتایا کہ ’لادی گینگ کے افراد نے گھر میں گھس کر تینوں افراد کو پکڑ لیا اور ایک کو اسی وقت گولی مار دی ، دوسرے شخص کی ویڈیو بنائی گئی اور تیسرے کو لے کر فرار ہو گئے۔‘  
ایک مقامی صحافی جاوید فاروقی نے بتایا کہ ’ان دونوں گروپوں کے درمیان عرصہ دراز سے دشمنی چل رہی تھی اور یہ تینوں افراد بڑے عرصے کے بعد علاقے میں واپس آئے تھے اور ان کے آتے ہی یہ واقعہ رونما ہو گیا۔‘ 

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزادر نے گینگ کے خلاف آپریشن کا حکم جاری کیا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

لادی گینگ ہے کیا؟ 

ڈیرہ غازی خان جنوبی پنجاب کا سب سے پسماندہ ضلع تصور کیا جاتا ہے جس کا 52 فیصد حصہ قبائلی نظام پر مشتمل ہے جبکہ 48 فیصد حصے پر حکومتی عمل داری ہے۔
قبائلی علاقے میں کوہ سلمان کا پہاڑی سلسلہ ہے اور اس میں کئی طرح کے قبائل آباد ہیں۔ یہاں پر پرانے فاٹا طرز پر ایک پولیٹیکل اسسٹنٹ تعینات ہے جو یہاں کی ایگزیکٹو اتھارٹی ہے جبکہ یہاں عام پولیس کی بجائے بارڈر ملٹری فورس اور بلوچ لیوی کے اہکار تعینات ہیں۔
علاقے کے پولیٹیکل اسسٹنٹ حمزہ سالک کے مطابق ’لادی گینگ گذشتہ 10 سالوں سے متحرک ہے ان کے موجودہ سربراہ کا نام خدا بخش ہے اور یہ جدید ہتھیاروں سے لیس ہے۔ حتیٰ کہ اس گینگ کے پاس راکٹ لانچر بھی ہیں۔ پہلے اس گروہ کا کام چھوٹی موٹی ڈکیتیاں تھا لیکن اب یہ خاصے فعال ہو چکے ہیں۔ ناہموار علاقے کی وجہ سے ان کے خلاف کارروائی کرنا قدرے مشکل ہوتا ہے۔‘ 
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’پہلی دفعہ ان کے خلاف ایک موثر آپریشن کرنے جا رہے ہیں جس میں ہمیں پولیس اور رینجرز کی مدد بھی حاصل ہے۔ یہ علاقہ ایک پرامن علاقہ ہے جس میں کئی قبائل آباد ہیں اور کبھی بھی لا اینڈ آرڈر کی صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ صرف لادی قبیلے کے کچھ افراد اب مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔‘
لادی بنیادی طور پر ایک ذات ہے اور یہ کھوسہ قبیلے کا ذیلی قبیلہ ہے۔ مقامی صحافی جاوید فاروقی نے بتایا کہ ’لادی گینگ کا سردار خدا بخش نامی ایک نوجوان ہے۔‘

مقامی صحافی جاوید فاروقی کے مطابق قبائلی علاقے میں قانون نافذ کرنے والے اہلکار گھوڑے یا موٹرسائیکل پر گشت کرتے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے بتایا کہ ’اس گروہ میں شامل افراد سمجھتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح پولیس نے ماضی میں ان کے ساتھ ناانصافیاں کی ہیں۔ حالیہ واقعے میں بھی تشدد اور ہلاکت کا شکار ہونے والے افراد پر انہوں نے یہ الزام لگایا کہ یہ پولیس کے مخبر تھے۔‘
جاوید فاروقی کے بقول ’پولیس اس علاقے میں نہیں آتی، اس کے لیے محکمہ داخلہ سے اجازت لینا پڑتی ہے۔ یہاں صرف بارڈر ملٹری فروس اور بلوچ لیوی ہی موجود ہوتی ہے جنہیں سوار کہا جاتا ہے۔ کیونکہ یہاں سڑکیں نہیں ہیں اس لیے قانون نافذ کرنے والے اہلکار گھوڑے یا موٹرسائیکل پر گشت کرتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’یہ گروپ ڈیرہ غازی خان کے آباد علاقوں میں ایک دو بڑی فیکٹریوں سے بھتہ اور کسانوں سے اناج لیتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ چھوٹی موٹی ڈکیتیوں میں بھی ملوث ہے۔ یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ ان کے خلاف اس بڑے پیمانے پر آپریشن کیا جا رہا ہے۔ یہ بھی اندیشہ ہے کہ پہاڑی علاقے کا فائدہ اٹھا کر بلوچستان بھی داخل ہو سکتے ہیں۔‘ 
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اس گینگ کے خلاف فیصلہ کن آپریشن کے احکامات ملتان کے سرکٹ ہاؤس میں ابتدائی رپورٹس دیکھنے کے بعد دیے جس میں اس علاقے کے پرامن قبائل بھی ساتھ دے رہے ہیں۔ 

شیئر: