یہ راستہ مملکت کے جنوب مغرب سے شروع ہو کر پانچ خطوں تک جاتا ہے جن میں شمالی بارڈر، ہیل، قسیم، مدینہ اور مکہ شامل ہیں۔
یہ دو مقدس مساجد کے نگران ادارے کے ثقافی ورثے کے تحفظ کے حوالے سے ان منصوبوں کی فہرست میں بھی شامل تھا جو اس وقت کے سعودی کمیشن برائے سیاحت اور قومی ورثہ نے شروع کیے۔
زبیدہ گزرگاہ عباسی دور 750 سے 1258 سال کے دووران حج اور کاروباری لحاظ سے انتہائی اہم روٹ کے طور پر سامنے آئی۔ اس وقت یہ بغداد، دو مقدس مساجد اور باقی عرب کے درمیان یہ ایک رابطہ بنی۔
اس کا نام عباسی خلیفہ ہارون الرشید کی زوجہ زبیدہ بنت جعفر کے نام پر رکھا گیا، جنہوں نے اس کی تعمیر میں حصہ ڈالا تھا۔
اس راستے پر 27 سٹیشنز موجود ہیں اور ہر ایک کے درمیان 50 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ جن میں کچھ ثانوی سٹیشنز اور سٹاپس بھی شامل ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ راستے کے اطراف میں گھر تعمیر ہوئے اور سہولتیں عام ہوئیں۔
کچھ مقامات پر حجاج کے لیے نشانات کی مدد سے پانی کے تالابوں کی نشاندہی کی گئی تھی تاکہ زیادہ سے زیادہ حجاج کی رسائی ہو۔
گزرگاہ پر الدافری کے تالاب کے علاوہ الامیا، التھولیمیا، الجمائمیہ، زابالا، ام السافر، حماد اور الاشر سمیت دوسرے اہم سٹیشنز موجود ہیں۔
سعودی حکام کی جانب سے اس گزرگاہ سمیت دوسرے انتہائی اہم دس تاریخی ورثے کے مقامات پر بھی کام کیا گیا ہے جو یونیسکو کے عالمی تاریخی ورثے کی فہرست میں شامل ہیں۔