11 جولائی 1995 کو بوسنیا کے علاقے سربرینیکا میں آٹھ ہزار مسلمانوں کا قتل عام ہوا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
بوسنیائی سرب کمانڈر راتکو ملادچ جنہیں سربرینیکا میں نسل کشی اور جنگی جرائم کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی، کی اپیل پر منگل کو فیصلہ سنایا جائے گا۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سرب کمانڈر جنہیں ’بوسنیا کے قصائی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، کو اقوام متحدہ کے جنگی جرائم کے ٹریبونل نے 2017 میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ منگل کو راتکو ملادچ کی اپیل پر ججز کا فیصلہ اس کیس کا حتمی فیصلہ ہوگا۔
توقع کی جا رہی ہے کہ 78 سالہ ملادچ منگل کو اپنی اپیل پر فیصلہ سننے کے لیے عدالت میں موجود ہوں گے جہاں پچھلی بار وہ مغرب کے خلاف غصے میں پھٹ پڑے تھے۔
المناک سانحہ کیسے رونما ہوا؟
11 جولائی 1995 کو بوسنیا کے علاقے سربرینیکا میں آٹھ ہزار مسلمانوں کا قتل عام ہوا تھا جسے دوسری عالمی جنگ کے بعد نسل کشی کا بدترین واقعہ سمجھا جاتا ہے۔
1992 میں پہلا محاصرہ:
اپریل 1992 میں بوسنیائی جنگ کے آغاز پر دارالحکومت سرائیوو کا محاصرہ شروع ہونے کے بعد مشرقی بوسنیا کے مسلم اکثریتی قصبے سربرینیکا پر سرب فوجی دستوں نے قبضہ کر لیا تھا۔
مشرقی درینا کی وادی میں دیگر قصبوں پر بھی قبضہ کر لیا گیا۔ بوسنیائی مسلمانوں نے محصور علاقے کو دوبارہ حاصل کر لیا تھا تاہم سال کے اواخر میں سربوں نے دوبارہ اس پر قبضہ جما لیا۔
اقوام متحدہ نے ’محفوظ علاقہ‘ قرار دیا
مارچ اور اپریل 1993 کے وسط میں کچھ آٹھ ہزار افراد شورش زدہ محصور علاقے سے نکل آئے جبکہ درجنوں بوسنیائی سرب فوج کی جانب سے کیے گئے بم دھماکوں کے نتیجے میں ہلاک ہو گئے۔
16 اپریل کو جب قصبے میں بھاری ٹینک اور توپ خانے سے جنگی صورتحال پیدا ہوئی تو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے سربرینیکا کو یو این اور نیٹو فورسز کی زیرحفاظت ’محفوظ علاقہ‘ قرار دے دیا یعنی ایسا علاقہ جو کسی بھی حملے یا کارروائی سے محفوظ ہو۔
سرائیوو میں اگلے ہی دن جنگ بندی اور علاقے کو فوجی دستوں سے خالی کرانے کا معاہدہ طے پایا لیکن اس کی کبھی پاسداری نہیں کی گئی۔
امن دستے کی روانگی
یکم مارچ 1994 میں اقوام متحدہ نے امن دستے کو محصور علاقے میں بھیجا تاکہ صورتحال کو قابو کیا جا سکے۔
1995 میں کشیدگی کا آغاز
جولائی 1995 کے اوائل میں بوسنیائی سرب فوج کے ٹینک قصبے سے صرف دو کلو میٹر کے فاصلے پر تھے جب مسلمانوں پر حملے کی شروعات کی گئی۔ 11 جولائی کو نیٹو نے دو سرب ٹینکوں پر فضائی حملے کیے۔
اسی دن بوسنیائی سرب فوج کی قیادت کرنے والے ملادچ نے سربرینیکا پر قبضہ کر لیا جس کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں مہاجروں نے ڈچ فوج کے کیمپ میں پناہ لے لی۔
مسلمانوں کا قتل عام
سربرینیکا پر قبضے کے بعد مالدچ نے خواتین اور بچوں سمیت تمام شہریوں کی بے دخلی کے احکامات جاری کر دیے جبکہ لڑنے کے قابل مردوں کو قید کر لیا۔
بوسنیائی سرب فوج نے آٹھ ہزار سے زائد مسلم مردوں اور لڑکوں کا منظم انداز میں قتل کر دیا اور ان کی لاشیں اجتماعی قبروں میں پھینک دیں۔
سربوں نے بعد میں شواہد چھپانے کی غرض سے کئی قبریں کھود کر ان لاشوں کو دوبارہ دفنایا۔
اس واقعے کے عینی شاہدین نے بوسنیائی سرب فوج کی قتل و غارت، ریپ اور اذیت کی ہولناک کہانیاں سنائیں۔
24 جولائی اور 16 نومبر کو بوسنیائی سرب رہنما رادووان کراجچ اور ملادچ کو انٹرنیشنل کریمینل ٹربیونل نے نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا تھا۔