ان قدیم درختوں کے جنگلات شدید طوفانوں کی وجہ سے ختم ہوتے جا رہے ہیں جبکہ نوخیز پودوں کو بکریاں نگل لیتی ہیں جس کی وجہ سے یہ حیاتیاتی مقام اب صحرا میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔
ریاضی کے استاد اور ٹوئر گائیڈ عدنان احمد کا کہنا ہے کہ ’یہ درخت پانی لاتے ہیں اس لیے یہ بہت اہم ہیں۔ ان درختوں کے بغیر ہم مشکل میں پڑ جائیں گے۔‘
یمن کے ساحل سے350 کلو میٹر کے فاصلے پر بحیرہ عرب اور افریقہ کے درمیان فیروزی سمندروں میں موجود سقطری جزیرہ 50 ہزار سے زائد افراد کا گھر ہے۔
2008 میں یونیسکو نے اسے دنیا کے سب سے زیادہ حیاتی تنوع سے مالا مال علاقوں میں سے ایک قرار دیتے ہوئے عالمی ورثے کی فہرست میں شامل کیا تھا۔
احمد نے بتایا کہ ’اس جزیرے کے رہائشی ڈریگن بلڈ ٹری کو لکڑی حاصل کرنے کے لیے نہیں کاٹتے کیونکہ یہ بارشوں کا سبب بنتے ہیں اور ان سے نکلنے والا سرخ محلول ادویات بنانے میں کام آتا ہے۔
سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ گلوبل وارمنگ، طوفان اور مویشیوں کی چرائی کی وجہ سے یہ درخت چند دہائیوں میں ہی ختم ہو جائیں گے۔
احمد نے کہا کہ ’بکریاں پودے کھا جاتی ہیں اس لیے نئے اگنے والے پودے صرف انہی جگہوں پر پائے جاتے ہیں جہاں تک ان کی رسائی نہ ہو۔‘
قدرت کے تحفظ کے عالمی ادارے(آئی یو سی این) نے خبردار کیا ہے کہ سقطری اس وقت ’انتہائی خطرے‘ میں ہے اور مومسیاتی تبدیلی کی وجہ سے یہ صورتحال تیزی سے بگڑ سکتی ہے۔
تاہم کوشش سے اس کے برے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے اور سقطری کے کچھ رہائشی اس جزیرے کے تحفظ کے لیے وہ سب کر رہے ہیں جو وہ کر سکتے ہیں۔
عدنان احمد نے کمیونٹی کی جانب سے بنائی گئی ڈریگن بلڈ ٹری کی نرسری کے گرد ایک بڑی دیوار کھڑی کی ہے تاکہ بکریاں اس حدود میں داخل نہ ہو سکیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ تو شروعات ہے ابھی بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘