Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستانی ریپر گروپ ریاض سے شروع ہونے والے سفر کی تلاش میں

سعودی دارالحکومت سے شروع ہونے والا ریپرز کا سفر اب موسیقی کا خاصا بڑا نام ہے (فوٹو: گاؤکی گینگ انسٹاگرام)
ریاض میں عرب ریپرز کے گروپ میں شامل اکلوتے پاکستانی مہد علی 2009 میں اس وقت ہم وطنوں مزمل واحد اور رامس علی سے ملے جب مقامی افراد اور مملکت کی چھوٹی مگر ٹیلنٹ سے بھرپور کیمونٹی میں ہپ ہاپ اور ریپ میوزک متعارف ہو رہا تھا۔
اس وقت ’گوکی گینگ‘ نامی ریپ بینڈ سامنے آیا۔ ابتدا میں یہ بینڈ سعودی عرب میں جوان ہوتے پاکستانیوں کے تجربے تک محدود تھا البتہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ سماجی انصاف اور خواتین کی ترقی جیسے وسیع موضوعات تک پھیل گیا۔
عرب نیوز سے گفتگو میں 23 سالہ مہد علی نے بتایا کہ ’خوش قسمتی سے مزمل اور میں ایک ہی محلے میں رہتے تھے۔ ریاض میں ہم ہی پاکستانی ریپرز ہیں کا خیال ذہن میں آنے کے بعد ہماری ملاقاتیں مزید باقاعدہ اور تواتر سے ہونے لگیں۔‘
پاکستان کے شہر فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے مزمل علی کہتے ہیں ’ہم نے ایسے لوگ دیکھے جو ریاض میں مختلف دیواروں پر آرٹ بناتے اور گلیوں، شاہراہوں میں ریپنگ کرتے۔‘
گروپ کی جانب سے یوٹیوب پر ’ریاض سٹی سائفر سیریز‘ متعارف کرائی گئی، جس کی آن لائن ویڈیوز پر لاکھوں لائیکس ملیں۔
مزمل کے مطابق ’ریاض سٹی سائفر سیریز یہاں مقیم پاکستانی برادری کے درمیان بہت مقبول ہوئی اور پاکستان سے بھی ہمیں خاصی حوصلہ افزائی ملی۔‘
انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب میں لائیو پرفارمنس کے حوالے سے ابتدائی برس آسان نہ تھے۔
مہد علی کا کہنا ہے کہ ابتدائی جدوجہد اور مشکلات نے ہمیں حوصلہ دیا کہ ہم میوزک پر مزید توجہ دیں اور سعودی عرب میں پرورش پاتے ہوئے ہونے والے تجربات سے متعلق لکھیں۔ اس کی وجہ سے بینڈ کو عرب موسیقاروں کی جانب سے بھی پسندیدگی ملی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں فارس البلد سمیت متعدد عرب ریپرز کی جانب سے سراہا گیا۔ اب بھی وہ ہماری حوصلہ افزائی کے پیغامات بھیجتے رہتے ہیں۔ یہ ردعمل اس لیے بھی بہت اہم تھا کہ عربی سے ہٹ کر کسی اور زبان میں تخلیق کیے گیے میوزک کو مل رہا تھا۔‘
بینڈ اراکین کے مطابق سعودی عرب میں رہتے ہوئے اپنی ترجیح اردو یا پنجابی کے بجائے ہم زیادہ تر عربی اور انگریزی زبانیں استعمال کرتے رہے ہیں۔
یہ زبانوں کا ہی مسئلہ تھا جس نے انہیں 2016 میں واپس پاکستان کا رخ کرنے پر آمادہ کیا۔ اس کے بعد ’گاؤکی ریکارڈز لیبل‘ متعارف کرایا گیا جو ان کے سٹیج نام کا ہی ایک اضافہ تھا۔

سعودی عرب میں بننے والے پاکستانی ریپرز کا بینڈ واپس ریاض جانے کا خواہاں ہے (فوٹو: عقیل سرفراز، انسٹاگرام)

رامس علی کے مطابق ’جہاں بچپن گزرا ہو، پوری زندگی بیتی ہو اس جگہ کو چھوڑنا آسان نہیں ہوتا۔ پاکستان مواقع کی سرزمین ہے لیکن ریاض میں ہم جس طرز زندگی کے عادی تھے اس سے یکسر مختلف انداز اپنانا خاصا مشکل تھا۔‘
پاکستان میں 2016 کے دوران ہپ ہاپ اور ریپنگ بہت ابتدائی مرحلے میں تھی اور اس قسم سے متعلق خاصی عجیب و غریب باتیں مشہور تھیں۔
عرب نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے گاؤکی ریکارڈز کے ساتھ کام کرنے والے ایک آرٹسٹ ہاشم نواز ملک کا کہنا تھا کہ ’ہماری ثقافت کے لیے اسے تسلیم کرنا تھوڑا سا مشکل ہے‘۔ تاہم اب ریپ کلچر کے حوالے سے چیزیں بہتر ہو رہی ہیں۔
پاکستان سپر لیگ کے لیے حالیہ سیزن میں متعارف کرائے گئے تھیم سونگ میں بھی ریپ پرفارمنس شامل ہے۔
مزمل علی کے مطابق ’جب ہم نے پہلے پہل کام شروع کیا تو یہاں شاید کل 100 دیسی ریپرز تھے‘۔ رامس نے اس میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اب کراچی کی ہر گلی میں 100 ریپرز مل جاتے ہیں۔‘
رامس کے مطابق گاؤکی گینگ مقامی ٹیلنٹ کے لیے بھی معاون رہا۔ سپوٹیفائی وغیرہ سے ہونے والی آمدن کے ذریعے دوسروں کو بھی ریکارڈنگ اور مکسنگ کی سہولیات فراہم کی گئیں۔

پاکستانی ریپرز سعودی عرب میں گزرنے دنوں، خصوصا ریاض کے کھانوں کو یاد کرتے ہیں (فوٹو: گاؤکی گینگ، فیس بک)

ان کا کہنا تھا کہ ‘پاکستانی ہپ ہاپ کو فروغ دینے کے لیے ہم اپنے لیبل کے لیے نئے ٹیلنٹ کو سائن کرتے ہیں، میوزک ویڈیوز کو سپانسر کرتے ہیں۔‘
مہد علی کے مطابق ’سعودی عرب میں قیام کے وقت سے ہم اپنے ساتھ کام کرنے والے ہر فرد کو آگے بڑھانے کے لیے کوشاں ہیں۔‘
بینڈ کی جانب سے پاکستان میں اور پاکستان سے باہر میوزک پر مسلسل کام کے باوجود اس کے ارکان اب بھی سعودی خصوصا وہاں کے کھانوں اور ابتدائی تجربات کو بھلا نہیں پائے ہیں۔
مزمل کے مطابق ’بعض اوقات سٹوڈیو میں بیٹھے بیٹھے سعودی عرب میں قیام کے دنوں کی کوئی بات یاد آ جاتی ہے، حالانہ ہم اب دس برس سے پاکستان میں ہیں۔ ہو سکتا ہے مزید دس برسوں بعد ہم کسی مختلف ملک میں ہوں۔‘
ان سے پوچھا گیا کہ کیا جہاں سے یہ سب کچھ شروع ہوا، اس ریاض کا رخ بھی کیا جا سکتا ہے؟ تو جواب میں مزمل کا کہنا تھا کہ ’جہاں سے یہ سب شروع ہوا، میوزک لے کر اسی سعودی عرب جا سکتے ہیں، البتہ اس مرتبہ یہ زیادہ بڑے پیمانے پر ہو گا۔‘

شیئر: