Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نئی اسرائیلی حکومت کو یروشلم کے معاملے پر فلسطینیوں کے ساتھ کشیدگی کا سامنا

نئی اسرائیلی حکومت مختلف الخیال جماعتوں کے اتحاد سے وجود میں آئی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
سابق اسرائیلی حکمران بنجامن نتن یاہو کی جانب سے نئے وزیراعظم نفتالی بینیٹ کو اقتدار منتقل کر دیا گیا ہے، تاہم مخلوط حکومت یہودی قوم پرستوں کے مارچ کے معاملے پر فلسطینیوں کے ساتھ کشیدگی کا سامنا کر رہی ہے۔
نفتالی بینٹ سے ملاقات کے کچھ دیر بعد نتن یاہو نے یہ عزم دہرایا ہے کہ وہ 59 کے مقابلے میں 60 ووٹوں سے بننے والی حکومت کو گرا کر دم لیں گے۔
برطانوی خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق 71 سالہ نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ ’یہ (حکومت) آپ کی توقع سے بھی جلد ختم ہو گی۔‘
اپنی جماعت لیکوڈ پارٹی کے ارکان سے گفتگو کرتے ہوئے مسلسل 12 برسوں سے اقتدار میں رہنے والے نتن یاہو نے مختلف الخیال جماعتوں سمیت عرب پارٹیوں کے اتحاد کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
اسرائیل میں مختلف الخیال جماعتوں نے نتن یاہو کو ہٹانے کے لیے اتحاد کیا تھا۔
نئے وزیراعظم کے اعزاز میں روایتی انداز اپنانے کے بجائے نتن یاہو نے سابق ڈیفنس چیف کے ساتھ ایک میٹنگ کی، جس میں حکومتی امور سے متعلق انہیں آگاہ کیا۔
اسرائیلی حکومت پہلے ہی اس مشکل کا شکار ہے کہ یروشلم کے مسلم اکثریتی علاقے سے گزرنے کا منصوبہ رکھنے والے یہودی قوم پرستوں کے جلوس کو اجازت دے یا نہیں۔
فلسطینیوں کی جانب سے یہودیوں کے مارچ کے دن کو ’یوم غضب‘ کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
یہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب گزشتہ ماہ مسجد اقصی اور اس کے پڑوس میں اسرائیلی پولیس کی کارروائیوں کا معاملہ ابھی تک تازہ ہے۔

نئے اسرائیلی وزیراعظم ایک پاکستانی ہسپتال کو حماس کا ہیڈکوارٹر قرار دینے پر کچھ عرصہ قبل تنقید کا سامنا کر چکے ہیں (فوٹو: ٹوئٹر نفتالی بینیٹ)

فلسطینی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’یہ (مارچ) ہمارے افراد کو اکسانے کے لیے اور ہمارے یروشلم اور دیگر مقدس مقامات کے خلاف جارحیت ہے۔‘
غزہ کی حکمراں جماعت حماس نے خبردار کیا ہے کہ اگر مارچ آگے بڑھا تو اس سے ممکنہ طور پر تصادم ہو سکتا ہے۔
اگر حکومت جلوس کا روٹ تبدیل کرتی یا اسے کینسل کرتی ہے تو وہ اپنے سیاسی مخالفین کے اس الزام کو تقویت دے گی کہ تل ابیب حکومت یرشلم کے معاملے پر حماس کو ویٹو پاور دے رہی ہے۔
انٹرنل سیکیورٹی کے نائب وزیر نے کان ریڈیو کو انٹرویو میں کہا کہ ’یہ فیصلہ کرنا اہم ہے کہ اس وقت کون سا کام درست رہے گا‘۔ وہ سابقہ حکومت کے متعلق کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے کشیدگی کے دوران قوم پرستو کو مسلم علاقوں میں جانے سے روک دیا تھا۔
فلسیطینیوں کا موقف ہے کہ وہ مقبوضہ مغربی کنارے اور فلسطین کے دارالحکومت کے طور پر مشرقی یروشلم کے حقدار ہیں، اس میں شہر کا قدیم حصہ بھی شامل ہے۔
اسرائیل نے 1967 کی جنگ کے بعد سے مشرقی یروشلم پر قبضہ کیا  اور پورے یروشلم کو اپنا دارالحکومت قرار دیتا ہے تاہم اس اقدام کو عالمی حمایت حاصل نہیں ہو سکی ہے۔

نیتن یاہو کا اصرار ہے کہ اسرائیل کی نئی حکومت جلد ختم ہو جائے گی (فوٹو: نفتالی بینیٹ، ٹوئٹر)

اسرائیل کی نئی حکومت کو توقع ہے کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ مشکل مسائل میں الجھ کر اپنے اتحادیوں میں کسی تفرقے کے بجائے اندرونی اصلاحات پر توجہ مرکوز رکھے گی۔
اسرائیل ڈیموکریسی انسٹیٹیوٹ کے صدر یوہانن پلیسنز کا کہنا ہے کہ ’حکومت کے لیے اہم سنگ میل بجٹ ہے۔ اگر تین تا چار ماہ کے اندر نئی حکومت نے آئندہ مالی سال کا بجٹ پاس کر لیا تو ہم توقع کر سکتے ہیں کہ یہ تین تا چار برس چلے گی، دوسری صورت میں عدم استحکام برقرار رہے گا۔‘
دوسری جانب فلسطینی وزیراعظم نے اپنی کابینہ کو بتایا کہ ’ہم نئی (اسرائیلی) حکومت کو کسی بھی طرح سابقہ حکومت سے کم برا نہیں دیکھتے۔‘
اسرائیل کی موجودہ اتحادی حکومت کے معاہدے کے تحت 49 سالہ آرتھوڈوکس یہودی اور ٹیکنالوجی کے شعبے سے منسلک مالدار افراد میں سے ایک نفتالی بینیٹ وزیراعظم بنے ہیں۔ اتحاد میں شامل سابق ٹیلی ویژن میزبان اور موجودہ وزیر خارجہ یائر لیپڈ 2023 میں وزارت عظمی سنبھالیں گے۔

شیئر: