سوزی شكونتانا کی والدہ اور چار بہن بھائی اسرائیلی حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ فوٹو روئٹرز
غزہ کی رہائشی سوزی شكونتانا کو اسرائیلی حملے میں تباہ ہونے والے گھر کے ملبے سے نکالے ہوئے تین ہفتے ہو گئے ہیں۔ تب سے یہ چھ سالہ بچی اپنی والدہ اور بہن بھائیوں سے متعلق سوالات کے علاوہ اور کوئی بات نہیں کرتی۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سوزی شكونتانا کے گھر پر ہونے والے اسرائیلی فضائی حملے کے نتیجے میں بچی کی والدہ اور چار بہن بھائی اسی دن ہلاک ہو گئے تھے، جبکہ سوزی شكونتانا کو ملبے سے زندہ نکال لیا گیا تھا۔
سوزی اپنے والد کے ساتھ انکل کے گھر میں رہ رہی ہیں۔ سوزی کے انکل رمزی کا کہنا ہے کہ [حادثے کے بعد سے سوزی کی نیند ٹھیک نہیں رہی، خوراک بہت کم ہو گئی ہے اور نہ ہی کھیلنے کا شوق رہا ہے۔‘
’وہ اپنی والدہ کے بارے میں بہت زیادہ پوچھتی ہیں، اور ہم یہی بتاتے ہیں کہ ان کی والدہ جنت میں ہیں۔‘
رمزی نے بتایا کہ ’سوزی کھیلتی کودتی نہیں ہیں اور اگر کوئی ان کے قریب آئے تو چیخنا شروع ہو جاتی ہیں۔‘
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونائیٹڈ نیشنز چلڈرن فنڈ (یونیسف) کے مطابق ’گذشتہ ماہ حماس اور اسرائیل کے درمیان 11 دن جاری رہنے والی لڑائی کے بعد غزہ میں تقریباً پانچ لاکھ بچوں کو نفسیاتی مدد کی ضرورت ہو سکتی ہے۔‘
یاد رہے کہ غزہ پر اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں 66 بچوں سمیت 250 فلسطینی ہلاک ہوئے تھے۔
سوزی شكونتانا کا گھر 16 مئی کو ہونے والے متعدد اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں تباہ ہو گیا تھا۔ غزہ میں محکمہ صحت سے متعلقہ عہدیداروں کے مطابق اس دن 42 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں 10 بچے بھی شامل تھے۔
اسرائیل نے کہا تھا کہ ’فضائی حملوں میں زیر زمین سرنگوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جو اسلحے کی ترسیل کے لیے حماس کے زیر استعمال تھیں، سرنگوں کا نیٹ ورک تباہ ہونے کی وجہ سے گھر بھی متاثر ہوئے ہیں۔‘
اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ ’شہریوں کی ہلاکتیں غیر ارادی تھیں، شہریوں کو نقصان سے بچانے کے لیے پر ممکن کوشش کی گئی تھی۔‘
ماہر نفسیات باقاعدگی سے سوزی شكونتانا سے ملتے ہیں تاکہ صدمے سے نمٹنے میں ان کی مدد کی جائے۔ اتوار کو ہونے والے آرٹ تھیراپی سیشن کے دوران سوزی شكونتانا اور ان کی کزن خاموشی سے بیٹھے ایک کاغذ پر اپنا نام پینٹ کرتی رہی تھیں۔
اپنے نام کے ساتھ سوزی نے دو بڑے سے دل بھی سرخ رنگ کے ساتھ پینٹ کیے تھے۔
سوزی کی ماہر نفسیات ثمر عاود کا کہنا ہے کہ سوزی اپنے خاندان کی گود سے جداہ ہو گئی، اپنی والدہ کی گود سے الگ ہوگئی، جبکہ معجزے سے زندہ بچ گئی۔
غزہ کی بیس لاکھ کی آبادی میں سے نصف کی عمر 18 سال سے کم ہے۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ان میں سے اکثریت تین گزشتہ جنگوں کے علاوہ اسرائیل اور غزہ کے درمیان ہونے والی متعدد لڑائیوں کے باعث صدمے سے دوچار ہیں۔
فلسطین کے لیے یونیسف کی نمائندہ خصوصی لوسیا علمی کے مطابق مئی میں ہونے والی لڑائی سے پہلے بھی تین میں سے ایک بچے کو نفسیاتی مدد کی ضرورت تھی۔
انہوں نے کہا کہ متاثرہ بچوں کی تعداد کا تعین کیا جا رہا ہے جو پانچ لاکھ کے قریب ہو سکتی ہے۔
غزہ میں ماہر نفسیات سمی اویدہ کا کہنا ہے کہ غزہ کے بچوں میں ڈپریشن اور عدم تحفظ جیسے نفسیاتی مسائل سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ صدمے کے نتیجے میں غزہ میں اکثر بچے سوتے میں اپنا بستر گیلا کر دیتے ہیں، ہکلانہ شروع کر دیتے ہیں، انہیں خوفناک خواب آتے ہیں اور کھانا پینا چھوڑ دیتے ہیں۔
سمی اویدہ کے مطابق زیادہ تر بچوں کا ایک ہی سوال ہے کہ ’اگلی جنگ کب ہوگی، ہم کیا کریں گے، ہم کہاں جائیں گے؟‘