مسلمانوں کی ’تذلیل‘ پر سری لنکا میں فوجیوں کے خلاف تحقیقات
مسلمانوں کی ’تذلیل‘ پر سری لنکا میں فوجیوں کے خلاف تحقیقات
اتوار 20 جون 2021 18:07
سری لنکن فوج نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ واقعے میں ملوث فوجیوں کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جائے گی۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
سری لنکا کی فوج نے اپنے فوجیوں کی جانب سے لاک ڈاؤن کے قواعد کی خلاف ورزی پر اقلیتی مسلمانوں کو سڑکوں پر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی سوشل میڈیا پوسٹس سامنے آنے کے بعد تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مسلح فوجیوں نے دارالحکومت کولمبو سے تین سو کلومیٹر دور مشرق میں ایراور نامی قصبے میں مسلمان شہریوں کو ہاتھ کھڑے کرنے اور سڑک پر گھٹنے ٹیکنے کا حکم دیا۔
اس حوالے سے مقامی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہ اس حکم کو شرمناک اور اپنی تذلیل سمجھتے ہیں، جبکہ حکام نے اعتراف کیا کہ فوجیوں کو ایسی سزا دینے کا اختیار نہیں ہے۔
متاثرین کھانا خریدنے کے لیے ریستوران جا رہے تھے۔
فوج نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ ایراور کے علاقے میں مبینہ طور پر ہراسانی کی کچھ تصاویر کے وائرل ہونے کے بعد ملٹری پولیس نے ابتدائی تفتیش کا پہلے ہی آغاز کر دیا ہوا ہے۔‘
بیان کے مطابق انچارج افسر کو ہٹا دیا گیا تھا اور اس واقعہ میں ملوث فوجیوں کو شہر چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔
سری لنکن فوج کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’فوج غلط کام کرنے والے تمام اہلکاروں کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کرے گی۔‘
خیال رہے کہ سری لنکا کورونا وائرس کی تیسری لہر سے نمٹنے کے لیے ایک ماہ سے طویل لاک ڈاؤن میں ہے۔
اپریل کے وسط میں وبا کی لہر کے آغاز کے بعد سے وائرس سے اموات کی تعداد چار گنا سے بڑھ کر دو ہزار 531 ہوگئی ہے۔
سری لنکن فوج جسے تامل علیحدگی پسندوں کے خلاف کئی دہائیوں تک جاری رہنے والی جنگ، جس کا سنہ 2009 میں خاتمہ ہوا تھا، میں جنگی جرائم کے الزامات کا سامنا ہے۔ فوج کو وائرس کے خلاف پابندیوں کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے پولیس اور حکام صحت کی مدد کے لیے تعینات کیا گیا ہے۔
سری لنکا کی پچھلی حکومتوں نے اس کی تردید کی ہے کہ علیحدگی پسندی کی جنگ کے آخری مراحل میں فوجیوں نے 40 ہزار کے قریب عام شہریوں کو ہلاک کیا، جبکہ اس جنگ میں سنہ 1972 سے 2009 کے درمیان مجموعی طور پر ایک لاکھ سے زیادہ افراد کی جانیں گئیں۔