Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیل میں فلسطینی شریک حیات کی رہائش پر پابندی کا قانون ختم

59 ووٹوں کو 59 نے ٹائی کر دیا جس کے باعث پابندی کا اقدام ختم ہوگیا۔ (فوٹو عرب نیوز)
عرب شہریوں اور اسرائیل کے رہائشیوں پر اپنے فلسطینی شریک حیات کے حقوق میں توسیع پر 2003 سے عائد 18 سالہ پابندی منگل کو ختم ہو گئی۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اسرائیل میں قانون ساز اس متنازع اقدام کی مدت میں توسیع کے لیے مطلوبہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
وزیراعظم نفتالی بینیٹ کی جانب سے پابندی کو جاری رکھنے کی درخواست نے ان کی حکومت کے بے جوڑ اتحاد کو تقسیم کر دیا اور بائیں بازو کے یہودیوں اور عرب قدامت پسندوں نے اس کی پرزور مخالفت کی۔

 اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں میں فلسطینیوں کے لئے بہت  پیچیدگیاں تھیں۔ (فوٹو الشرق الاوسط)

منگل کو اسرائیلی پارلیمنٹ میں اس حوالے سے ووٹنگ ہوئی۔ 59 ووٹوں کو 59 ووٹوں نے ٹائی کر دیا جس کے باعث پابندی کا اقدام ختم ہو گیا۔
ان نتائج نے 120 نشستوں والی پارلیمنٹ میں بینیٹ کی اتحادی حکومت کی انتہائی قلیل اکثریت کو بھی واضح کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ اتحاد میں شامل 8 جماعتیں زیادہ متحد نہیں تھیں لیکن حزب اختلاف کے رہنما بینجمن نیتن یاہو سے ان کی مشترکہ دشمنی تھی، جنہیں انہوں نے 12 برس کی ریکارڈ مدت تک اقتدار میں رہنے کے بعد گزشتہ ماہ ہی عہدے سے ہٹایا تھا۔
پابندی کے حامیوں نے اسے سیکیورٹی بنیاد پر جائز قرار دیا تھا لیکن ناقدین نے اسے اسرائیل کی جانب سے عرب اقلیت کو نشانہ بنانے والا امتیازی سلوک قرار یا اور اس کی مذمت کی۔
اس پابندی نے اسرائیل اور 1967 سے اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں میں رہائش پذیر فلسطینیوں کے لئے بے انتہا پیچیدگیاں پیدا کر دی تھیں۔

اسرائیل میں قانون ساز اس متنازعہ اقدام میں توسیع میں ناکام رہے۔ (فوٹو عرب نیوز)

گذشتہ روز پارلیمنٹ کے باہر اس اقدام کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کچھ لوگوں نے اپنے شریک حیات کے ساتھ اکٹھے ہونے کے اجازت نامے طلب کرنے کی راہ میں حائل مشکلات یا بغیر اجازت اسرائیلی علاقے میں داخل ہونے کے خطرات بیان کیے۔
ایک شہری علی متعب نے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ان کی اہلیہ کے اسرائیلی رہائش کا حق نہ رکھنے کے باعث ان کے اہل خانہ جیل میں قیدیوں جیسی صورتحال سے دوچار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’میں اپنے ان حقوق کا سوال کر رہا ہوں جن کا اسرائیل مقروض ہے۔ میری اہلیہ کو اسرائیلی شناخت، رہائشی حقوق اور نقل و حرکت کی آزادی حاصل ہونی چاہیے۔‘
فلسطینیوں کو قانونی خدمات فراہم کرنے والے اسرائیلی انسانی حقوق گروپ ہاموکڈ کی سربراہ جیسیکا مونٹیل نے کہا ہے کہ اس قانون سے دسیوں ہزار خاندانوں کو نقصان پہنچا۔
 

شیئر: