Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عثمان مرزا کیس: ’پراسیکیوشن ایسی ہو کہ ملزمان کو کوئی راستہ نہ ملے‘

ایس ایس پی انویسٹی گیشن نے کمیٹی کو بتایا کہ ’یہ واقعہ 18 نومبر 2020 کا ہے اور چھ جولائی کو ویڈیو وائرل ہوئی‘ (فوٹو: فلکر)
اسلام آباد کے ڈی آئی جی آپریشنز افضال کوثر نے عثمان مرزا کیس کے حوالے سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ’اس کیس کی کارروائی ان کیمرہ ہوگی۔‘
بدھ کو سینیٹر محسن عزیز کی سربراہی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں عثمان مرزا کیس پر گفتگو کی گئی۔
قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بریفنگ کے دوران ڈی آئی جی آپریشنز نے بتایا کہ ’اسلام آباد میں لڑکا لڑکی پر تشدد کی تحقیقات سپیشل انویسٹی گیشن ٹیم کر رہی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کوشش کر رہے ہیں کہ معاملے کو جلد حل کیا جائے تاہم لیبارٹریز سے رپورٹس آنے میں وقت لگتا ہے۔‘
’اس کیس میں دفعہ 345 اے لگائی گئی ہے جس کی سزا سزائے موت ہے۔‘
ڈائریکٹر سائبر کرائم محمد جعفر نے کمیٹی کو بتایا کہ ’سائبر کرائم بہت زیادہ بڑھ چکا ہے اور لڑکا لڑکی پر تشدد کی ویڈیو 26 جگہوں پر وائرل ہوئی۔‘
’ہمارا کمپلینٹ مینجمنٹ سسٹم ہے اور کیس مینجمنٹ سسٹم بھی بنا رہے ہیں۔ ہماری پورے پاکستان میں فرانزک لیبز موجود ہیں۔ ہماری کارکردگی آپ کو نظر آئے گی لیکن تھوڑی سست ہے۔‘
ایس ایس پی انویسٹی گیشن نے کمیٹی کو بتایا کہ ’یہ واقعہ 18 نومبر 2020 کا ہے، چھ جولائی کو ویڈیو وائرل ہوئی اور اسی دن ایف آئی آر درج کی گئی۔‘
کمیٹی کے چیئرمین نے سوال کیا کہ اس پر کون سی دفعات لگی ہیں تو ایس ایس پی انویسٹی گیشن نے کہا کہ ’اس میں دفعہ 354 لگائی گئی ہے جس میں سزائے موت یا عمرقید ہوسکتی ہے۔‘

ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس نے عثمان مرزا کو گرفتار کیا تھا (فوٹو: اسلام آباد پولیس)

ان کا کہنا تھا کہ متاثرہ جوڑے نے بتایا کہ ’ملزمان نے ان سے پیسے بھی چھینے اور گھر میں آکر بلیک میل کرکے بھتہ بھی لیتے تھے۔‘
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ’آپ کو بلانے کا مقصد یہ تھا کہ اس کیس کی پراسیکیوشن اتنی زبردست ہو کہ بعد میں ملزمان کو کوئی راستہ نہ ملے۔ ہم چاہتے ہیں ان لوگوں کو جو سزائیں ملیں وہ عوام کے سامنے آئیں۔‘
ایس ایس پی انویسٹی گیشن کے مطابق ’متاثرہ افراد یہاں آنے کو تیار نہیں، وہ کسی صورت سامنے نہیں آنا چاہتے۔ ہم ان کو تحفظ فراہم کرنے کو تیار ہیں، لیکن وہ سامنے آنے کو تیار ہی نہیں۔‘
سینیڑ رانا مقبول نے سوال کیا کہ متاثرہ جوڑے کی حفاظت کے لیے آپ نے کیا کیا ہے جس پر ایس ایس پی انویسٹی گیشن کا کہنا تھا کہ ’ہماری حراست میں سات لوگ ہیں ایک کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہے ہیں۔‘
سینیڑ رانا مقبول نے کہا کہ ’اس کا ان کیمرہ ٹرائل کروائیں، اور پراسیکیوشن اہل لوگوں سے کروائیں۔‘
ایس ایس پی انویسٹی گیشن نے کہا کہ ’ملزم عثمان مرزا کوئی بہت بڑے آدمی نہیں، پراپرٹی کا کاروبار کرتے ہیں اور کار ڈیلر ہیں۔‘

شیئر: