Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومت میں آنے کے بعد کہیں طالبان کا رویہ تبدیل نہ ہوجائے: افغان خواتین کا خدشہ

تین روز سے افغانستان کا دارالحکومت کابل طالبان کے زیر کنٹرول ہے اور وہ اس کوشش میں ہیں کہ کابل کے شہریوں کو معمولات زندگی کی جانب لوٹنے پر آمادہ کیا جائے۔
طالبان نے کابل کے شہریوں اور خواتین کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ وہ تعلیمی سلسلہ جاری رکھیں، دفاتر کا رخ کریں اور بلا کسی خوف و خطر اپنی روزمرہ زندگی کا آغاز کریں۔
تاہم شہری اور بالخصوص خواتین طالبان کے گذشتہ دور کے واقعات کو یاد کر کے ڈر اور خوف کی وجہ سے معمولات زندگی کی جانب لوٹنے سے ہچکچکا رہی ہیں۔
تاہم سوشل میڈیا پر طالبان کی جانب سے خواتین کے کام کرنے کے حوالے سے بیانات اور منگل کو کابل کی سڑکوں پر افغان خواتین صحافیوں کو دیکھ کر ان کا کچھ حوصلہ بڑھا ہے۔
کابل میں انسانی اور سیاسی حقوق کی ایک کارکن زرمینہ کاکڑ طالبان کے پرانے نظریات کی مخالف رہی ہیں، لیکن وہ اب طالبان کے رویے میں تبدیلی دیکھ رہی ہیں۔
اردو نیوز سے بات ہوئے زرمینہ کاکڑ نے کہا کہ ’گذشتہ 20 برسوں میں ہم نے ایک آزاد زندگی گزاری اور نہیں چاہتے کہ ہمارے ساتھ زبردستی کی جائے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’طالبان کے حالیہ بیانات اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے نرم رویہ دیکھنے پر اب افغان خواتین میں ایک امید پیدا ہوگئی ہے۔‘
’رویے میں فرق ہے آیا ہے، وہ ایسا رویہ رکھ رہے ہیں کہ لوگوں میں خوف ختم ہو جائے لیکن سمجھ نہیں آرہا کہ حکومت میں آنے کے بعد رویہ تبدیل نہ ہو جائے۔‘
زرمینہ کاکڑ کے مطابق ’ہمارا مطالبہ طالبان سے یہی ہے کہ شہریوں کے احساسات کا احترام کریں، نظریات کا احترام کریں اور ایسا کام کریں کہ سب ان کے ساتھ مل کر افغانستان کی ترقی کے لیے کام کریں تاکہ افغانستان 20 سال پیچھے نہ چلا جائے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’طالبان خواتین کے لیے حجاب رائج کرنا چاہتے ہیں لیکن اس کو ایک انتخاب کے طور پر رکھنا چاہیے نہ کہ افغان خواتین پر حجاب لازم کیا جائے۔‘
’افغان آئین کے مطابق ہر وہ لباس جو افغان ثقافت سے مطابقت رکھتا ہو خواتین استعمال کریں، لیکن امارات اسلامی کا کہنا ہے کہ وہ حجاب کریں جس کا مطلب خواتین کے نزدیک برقع ہے۔‘

طالبان نے 15 اگست کو کابل میں داخل ہوتے وقت عام معافی کا اعلان کیا تھا (فائل فوٹو: روئٹرز)

’لیکن یہ بات ان خواتین کے لیے مشکل ہے جنہوں نے ان 20 برسوں میں ایک آزاد زندگی گزاری۔ ہر انسان کا حق ہے کہ وہ طرز زندگی کا خود انتخاب کرے۔‘
15 اگست 2021 کو کابل میں داخلے کے وقت طالبان نے اعلان کیا تھا کہ افغان خواتین کو کام کی اجازت ہوگی اور وہ تعلیمی اداروں اور دفاتر میں معمول کے مطابق جا سکتی ہیں۔
گذشتہ 20 برسوں میں پہلی مرتبہ افغان خواتین نے شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں ترقی کی ہے اور ان کو صحت کے شعبے، عدالت، ایئرپورٹ، پارلیمان اور یونیورسٹیز میں کام کرتے دیکھا گیا ہے۔
طالبان نے 15 اگست کو کابل میں داخل ہوتے وقت عام معافی کا اعلان کیا تھا۔
کابل کی ایک رہائشی خاتون صحافی جو ایک غیر ملکی ادارے کے ساتھ کام کرتی ہیں، نے نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ ’طالبان کابل میں ہیں اور ان کے علاقے میں بھی موجود ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ان کا پورا خاندان سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں کام کرتا ہے۔ کابل میں بینک بند ہیں اور ان کے پاس خرچے کے لیے پیسے بھی نہیں کیونکہ وقتاً فوقتاً اے ٹی ایم سے نکالتے ہیں۔‘

خاتون صحافی کا کہنا ہے کہ ’وہ طالبان کے رویے میں تبدیلی تو دیکھ رہی ہے لیکن فی الحال کنفیوز ہیں کہ گھر سے باہر نکلیں یا نہیں‘ (فوٹو: روئٹرز)

خاتون صحافی کا کہنا ہے کہ ’وہ طالبان کے رویے میں تبدیلی تو دیکھ رہی ہیں لیکن فی الحال کنفیوز ہیں کہ گھر سے باہر نکلیں یا نہیں۔‘
’ہم تو سکارف یا دوپٹہ اوڑھ کر باہر نکل جاتے تھے کیونکہ سب ہی کام کرنے والی خواتین ایسا کرتی تھیں۔ یہاں سب سروں کو پہلے بھی ڈھانپتی تھیں جب باہر نکلتی تھیں، سر پر دوپٹہ لازمی ہوتا تھا۔ یہ ہمارے لباس کا حصہ ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں چاہتی ہوں کہ خواتین کی ترقی نہ رکے، جو مواقع حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومت میں خواتین کو ملے وہ نہیں رکنے چاہییں۔ طالبان کو بھی خواتین کو ہر شعبے میں ترقی دینی چاہیے۔‘
ایک اور خاتون، جو کہ بچوں کے لیے کتابیں مرتب کرتی ہیں، کا کہنا ہے کہ ’طالبان کے رویے میں فرق دیکھ رہے ہیں لیکن ابھی ہم حالات کا جائزہ لے رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’کابل میں ایسی خواتین ہیں جن کے کندھوں پر گھر کی ذمہ داری ہے اور ان کی تنخواہ ہی سے گھر چلتے ہیں۔‘
’ہم چاہتے ہیں کہ پہلے کی طرح کام جاری رکھیں اور جس طرح پہلے گھر سے آسانی سے نکل سکتے تھے ویسے اب بھی ہو کیونکہ یہ ضروت ہے اور ہم نے گھر چلانا ہے۔‘

شیئر: