Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جنوبی عراق میں چھ مجرموں کو پھانسی دے دی گئی

’دہشتگردی‘ کے 14 مجرموں کو رواں سال پھانسی دی جا چکی ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
جنوبی عراق میں چھ عراقی شہریوں کو سزائے موت دی گئی ہے، جن میں سے تین پر ’دہشتگردی‘ کی دفعات لگی ہوئی تھیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق طبی ذرائع کا کہنا ہے کہ قیدیوں کو سزائے موت نصیریہ جیل میں دی گئی جہاں سزائے موت ملنے والے مجرموں کو رکھا جاتا ہے۔
جن مجرموں کو ’دہشتگردی‘ کے لیے سزائے موت نہیں دی گئی انہیں ’مجرمانہ کیسز‘ پر پھانسی دی گئی۔
انسانی حقوق کے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ انہوں نے گذشتہ سال عراق میں 45 سے زیادہ سزائے موت ریکارڈ کیں، جن میں سے کئی پر داعش کا حصہ ہونے کا الزام تھا۔
سنہ 2005 کے ایک قانون کے تحت ہر اس شخص کو سزائے موت دی جائے گی جس کے خلاف ’دہشتگردی‘ کے الزامات ثابت ہوں۔ اس میں وہ افراد شامل ہیں جن کے پاس کسی بھی انتہا پسند گروپ کی رکنیت ہو۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا ماننا ہے کہ سزائے موت کو سیاسی وجوہات کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
سنہ 2017 میں بغداد نے سرکاری سطح پر داعش کی شکست کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد سے عراق کی عدالتوں نے سینکڑوں افراد کو ان جرائم کے لیے سزائے موت سنائی جو ان جہادیوں کی جانب سے کیے جارہے تھے جنہوں نے عراق اور شام کے 2014 میں قبضہ کیے گئے علاقوں میں ’خلافت‘ قائم کی تھی۔

اقوام متحدہ کے ماہرین نے بغداد پر زور دیا تھا کہ ’بڑے پیمانے پر دی جانے والی پھانسیاں‘ روک دی جائیں۔ (فائل فوٹو: عرب نیوز)

تاہم اب تک سزائے موت کے صرف کچھ ہی مجرموں کو پھانسی دی گئی ہے کیونکہ ان کی منظوری صدر کی جانب سے آتی ہے۔
پھانسی دینے والے برھم صالح، جو 2018 سے اس پوسٹ پر ہیں، ذاتی طور پر سزائے موت کے خلاف ہیں۔
اے ایف پی کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال ’دہشتگردی‘ کے الزام پر 14 افراد کو اب تک پھانسی دی جا چکی ہے۔ یہ تمام پھانسیاں نصیریہ جیل میں دی گئیں تھیں۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپس نے عراق کے نظامِ انصاف پر الزام لگایا ہے کہ اس میں ملزم کو دفاع کا موقع دیے بغیر سزائے موت سنا دی جاتی ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے نومبر میں بغداد پر زور دیا تھا کہ ’بڑے پیمانے پر دی جانے والی پھانسیاں‘ روک دی جائیں۔

شیئر: