مشرقی سوڈان کے ساحلی شہر پورٹ سوڈان کے ایک بوسیدہ کلاس روم میں لکڑی کی بینچوں پر بیٹھے مرد اور خواتین ہلکے سیاہی مائل تختے پر عربی حروف لکھتی ٹیچر کی جانب توجہ سے دیکھ رہے ہیں۔
فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سوڈان کے عملی دارالحکومت پورٹ سوڈان میں 63 سالہ آمنہ محمد احمد گذشتہ تین دہائیوں سے سیکڑوں ناخواندہ افراد کی زیور سے آراستہ کرنے میں مدد دے رہی ہیں۔
مزید پڑھیں
-
سوڈان کی تحریک بیداری کے پیچھے کیا ہے؟
Node ID: 414936
-
-
سوڈان میں تنازعات و جبری ہجرت: خواتین کے لیے نیا بحران
Node ID: 786106
نارنجی رنگ کا سکارف سر پر خوبصورتی سے لپیٹے آمنہ بتاتی ہیں’ ان کے ارد گرد ماحول میں ناخواندگی عام تھی جس کے باعث انہوں نے 1995 میں اس تعلیمی منصوبے کی شروعات کی۔‘
آمنہ نے بتایا ’اس شعبے میں مجھے جس چیز نے متحرک کیا وہ یہ کہ علاقے کے باشندے تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے جس کے لیے وہ بار بار یہاں آتے تھے۔‘
خصوصاً ایسی خواتین جو ثقافتی اور مالی رکاوٹوں کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر سکیں اور سکول جانے سے بھی محروم رہیں ان کے لئے کلاسز کا اجراء تعلیمی صلاحیتیں بڑھانے کا بہترین ذریعہ بنا۔
کلاس روم میں موجود 39 سالہ نسرین بابکر کے لیے تعلیم بالغاں کے سکول واپس آنا دیرینہ خواب تھا۔
نسرین نے شادی اور والد کے انتقال کے بعد چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمہ داری کے باعث 2001 میں سکول چھوڑ دیا تھا۔
نسرین نے بتایا ’اب میرے بہن بھائی بڑے ہو گئے جس کے بعد اب مجھے دوبارہ تعلیم حاصل کرنے کی خواہش محسوس ہوئی، اتنے سال بعد بھی ایسا لگتا ہے جیسے میں نیا آغاز کر رہی ہوں۔

آمنہ احمد کا یہ سکول ان لوگوں کے لیے اب ایک پناہ گاہ کی حیثیت رکھتا ہے جو سوڈان میں جاری جنگ کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے تھے۔
سوڈان میں اپریل 2023 میں آرمی چیف عبدالفتاح البرہان اور پیرا ملٹری ریپڈ سپورٹ فورسز کے سربراہ ان کے سابق نائب محمد حمدان دقلو کے درمیان اقتدار کی جنگ شروع ہوئی تھی۔
سوڈان میں اس آپسی جنگ میں ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں جب کہ 1 کروڑ 20 لاکھ سے زائد بے گھر ہوئے ہیں جس کے باعث وسیع علاقہ قحط اور بھوک کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔

سکول میں تعلیم حاصل کرنے والی ماریا آدم بھی انہی لوگوں میں شامل ہیں جو جنگ کے بعد محفوظ پناہ اور بہتر مستقبل کی تلاش میں اپنا گھر چھوڑ کر پورٹ سوڈان پہنچیں۔
28 سالہ ماریا نے بتایا میں نے 11 سال کی عمر میں تعلیم چھوڑ دی تھی اب جب میں پورٹ سوڈان پہنچی اور سکول کے بارے میں سنا تو فوراً داخل ہو گئی۔
اقوام متحدہ کے مطابق سوڈان کا تعلیمی نظام جنگ سے بری طرح متاثر ہوا، ملک کے 90 فیصد سے زائد سکول جانے کی عمر کے 1 کروڑ 90 لاکھ بچے ابتدائی تعلیم سے محروم ہو چکے ہیں۔
