Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پورٹ سوڈان میں تعلیمی مشن: معلمہ کا عزم اور نئی امید

آمنہ احمد سیکڑوں ناخواندہ افراد کو تعلیم کی راہ پر ڈالنے میں مدد کر رہی ہیں۔ فوٹو اے ایف پی
مشرقی سوڈان کے ساحلی شہر پورٹ سوڈان کے ایک بوسیدہ کلاس روم میں لکڑی کی بینچوں پر بیٹھے مرد اور خواتین ہلکے سیاہی مائل تختے پر عربی حروف لکھتی ٹیچر کی جانب توجہ سے دیکھ رہے ہیں۔
فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سوڈان کے عملی دارالحکومت پورٹ سوڈان میں 63 سالہ آمنہ محمد احمد گذشتہ تین دہائیوں سے سیکڑوں ناخواندہ افراد کی زیور سے آراستہ کرنے میں مدد دے رہی ہیں۔
نارنجی رنگ کا سکارف سر پر خوبصورتی سے لپیٹے آمنہ بتاتی ہیں’ ان کے ارد گرد ماحول میں ناخواندگی عام تھی جس کے باعث انہوں نے 1995 میں اس تعلیمی منصوبے کی شروعات کی۔‘ 
آمنہ نے بتایا ’اس شعبے میں مجھے جس چیز نے متحرک کیا وہ یہ کہ علاقے کے باشندے تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے جس کے لیے وہ بار بار یہاں آتے تھے۔‘
خصوصاً ایسی خواتین جو ثقافتی اور مالی رکاوٹوں کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر سکیں اور سکول جانے سے  بھی محروم رہیں ان کے لئے کلاسز کا اجراء تعلیمی صلاحیتیں بڑھانے کا بہترین ذریعہ بنا۔
کلاس روم میں موجود 39 سالہ نسرین بابکر کے لیے تعلیم بالغاں کے سکول واپس آنا دیرینہ خواب تھا۔
نسرین نے شادی اور والد کے انتقال کے بعد چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمہ داری کے باعث 2001 میں سکول چھوڑ دیا تھا۔
نسرین نے بتایا ’اب میرے بہن بھائی بڑے ہو گئے جس کے بعد اب مجھے دوبارہ تعلیم حاصل کرنے کی خواہش محسوس ہوئی، اتنے سال بعد بھی ایسا لگتا ہے جیسے میں نیا آغاز کر رہی ہوں۔

بوسیدہ کلاس روم میں لکڑی کے بینچ پر بیٹھی خواتین علم حاصل کر رہی ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

آمنہ احمد کا یہ سکول ان لوگوں کے لیے اب ایک پناہ گاہ کی حیثیت رکھتا ہے جو سوڈان میں جاری جنگ کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے تھے۔
سوڈان میں اپریل 2023 میں آرمی چیف عبدالفتاح البرہان اور پیرا ملٹری ریپڈ سپورٹ فورسز کے سربراہ ان کے سابق نائب محمد حمدان دقلو کے درمیان اقتدار کی جنگ شروع ہوئی تھی۔
سوڈان میں اس آپسی جنگ میں  ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں جب کہ 1 کروڑ 20 لاکھ سے زائد بے گھر ہوئے ہیں جس کے باعث  وسیع علاقہ قحط اور بھوک کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔

سوڈان میں قائم زیادہ تر سکول عارضی پناہ گاہوں میں بدل گئے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

سکول میں تعلیم حاصل کرنے والی ماریا آدم بھی انہی لوگوں میں شامل ہیں جو جنگ کے بعد محفوظ پناہ اور بہتر مستقبل کی تلاش میں اپنا گھر چھوڑ کر پورٹ سوڈان پہنچیں۔
28 سالہ ماریا نے بتایا میں نے 11 سال کی عمر میں تعلیم چھوڑ دی تھی اب جب میں پورٹ سوڈان پہنچی اور سکول کے بارے میں سنا تو فوراً داخل ہو گئی۔
اقوام متحدہ کے مطابق سوڈان کا تعلیمی نظام  جنگ سے بری طرح متاثر ہوا، ملک کے 90 فیصد سے زائد سکول جانے کی عمر کے 1 کروڑ 90 لاکھ بچے  ابتدائی تعلیم سے محروم ہو چکے ہیں۔

سوڈان میں جاری جنگ کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے تھے۔ فوٹو اے ایف پی

سوڈان میں قائم زیادہ تر سکول اور کلاس رومز بے گھر خاندانوں کے عارضی پناہ گاہوں میں تبدیل کر دیے گئے ہیں۔
سکول کی بانی آمنہ احمد نے بتایا ’جب میں کسی کو فارغ التحصیل ہو کر نوکری حاصل کرتے اور اپنے خاندان کی مدد کرتے دیکھتی ہوں تو یہی چیز مجھے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ 
وہ لوگ جو علم کے بغیر دوسروں پر بوجھ سمجھے جاتے ہیں تعلیم کے ذریعے باوقار، خودمختار اور معاشرے کے مفید شہری بن جاتے ہیں۔
 

 

شیئر: