جہانگیر ترین ڈپٹی وزیراعظم تھے، انہوں نے ملک کو نقصان پہنچایا: پرویز الٰہی
جہانگیر ترین ڈپٹی وزیراعظم تھے، انہوں نے ملک کو نقصان پہنچایا: پرویز الٰہی
جمعہ 3 ستمبر 2021 5:26
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی اسمبلی کے سپیکر اور مسلم لیگ ق کے سینیئر رہنما چوہدری پرویز الٰہی نے تحریک انصاف کے ناراض رہنما جہانگیر ترین پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ان کے نام کا کوئی گروپ وجود ہی نہیں رکھتا۔‘
اردو نیوز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ ’میرے نزدیک ایسا کوئی گروپ شروپ نہیں ہے، بلکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ جہانگیر ترین صاحب نے ڈپٹی وزیراعظم کا سٹیٹس انجوائے کیا ہے۔‘
’عمران خان صاحب نے سب کچھ ان پر چھوڑا ہوا تھا۔ اس پر وہ (عمران خان) کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ دھوکہ کیا گیا ہے۔ انہوں (جہانگیر ترین) نے ایسے ایسے کام کیے جس سے پارٹی اور ملک دونوں کو نقصان ہوا۔ اسی وجہ سے وزیراعظم ان سے ناراض ہیں اور یہ ناراضی ان کا حق ہے۔ ‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’جہانگیر ترین گروپ سے پنجاب میں حکومت کو کسی قسم کا کوئی خدشہ نہیں ہے۔ جن اراکین کو ترین گروپ کہا جارہا ہے وہ تو وزارتوں سے محظوظ ہو رہے ہیں۔ وہ حکومت کی تمام مراعات اور وزارتیں انجوائے کر رہے ہیں، بلکہ وہ تو ہر وقت مجھے بزدار صاحب کے ساتھ بھی نظر آتے ہیں۔‘
خیال رہے کہ گذشتہ سال چینی سکینڈل میں وفاقی حکومت کی بنائی ہوئی ایک کمیٹی نے وزیراعظم عمران خان کے ماضی میں دست راست سمجھے جانے والے جہانگیر ترین سمیت کئی شوگر مالکان کو اس کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔
بعد ازاں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ترین فیملی کے خلاف منی لانڈرنگ جیسے سنگین الزمات کے دو مقدمات درج کیے جس کے نتیجے میں تحریک انصاف کے 30 کے لگ بھگ قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان نے جہانگیر ترین کی حمایت کا اعلان کیا تھا جس کے بعد ایف آئی اے ان مقدمات پر اپنی پوزیشن سے پیچھے ہٹ گئی۔
نواز، شہباز کی سیاست
پنجاب کی سیاست میں اہم شخصیت سمجھے جانے والے چوہدری پرویز الٰہی نے اپنے انٹرویو میں مسلم لیگ ن کی اندرونی سیاست پر بھی کھل کے بات کی۔
انہوں نے کہا کہ ’پارٹی کے اندر بیانیے کی جنگ نہیں بلکہ سیاسی وراثت کا مسئلہ ہے۔ ’حقیقت یہ کہ ووٹ بینک نواز شریف کا ہے۔ شہباز شریف کا کوئی ووٹ نہیں، اور نواز شریف یہ چاہتے ہیں کہ میرا نام میری اولاد آگے چلائے۔ چونکہ ان کے بیٹے سیاست میں نہیں ہیں، مریم بی بی سیاست میں ہیں تو اس لیے وہ کافی فرنٹ پر جا رہی ہیں۔‘
چوہدری پرویز الٰہی سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی پارٹی کے لوگ مخمصے میں ہیں۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے وہ بولے ’ان کی پارٹی کے لوگ کنفیوز ہیں۔ ان کو اب سمجھ نہیں آرہی کہ ووٹ بنک تو میاں صاحب کے ساتھ ہے اور جب وہ شہباز شریف کی طرف دیکھتے ہیں تو ان (شہباز شریف ) کی ہر بات کی تردید مریم کی طرف سے آجاتی ہے۔ یہ واضح ڈویژن ہے اور اس کا نقصان اجتماعی ہوگا۔ کسی کو کم ہو سکتا ہے کسی کو زیادہ۔ اس طرح منقسم ہو کر الیکشن میں جائیں گے تو ان کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہوگی۔‘
خیال رہے کے چوہدری پرویز الٰہی خود ماضی میں مسلم لیگ ن کے ایک اہم رہنما رہے ہیں۔ 1999 میں سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے اقتدار پر قبضے کے بعد جو سیاسی بساط بچھائی گئی چوہدری پرویزالٰہی نے اس میں اپنی راہیں مسلم لیگ ن سے جدا کرلیں اور پاکستان مسلم لیگ ق کے نام سے نئی سیاسی جماعت بنائی اور پانچ سال تک پنجاب کے وزیر اعلٰی رہے۔
شہباز شریف کا تکبر
چوہدری پرویز الٰہی نے اپنے انٹرویو میں پنجاب کے سابق وزیراعلٰی شہباز شریف سے شکوہ بھی کیا اور ان پر تنقید بھی کی۔
انہوں نے کہا کہ ’شہباز شریف نے کئی پروجیکٹس صرف اس لیے بند کروائے کیونکہ ان کا آغاز میں نے کیا تھا۔‘
’شہباز شریف نے میرے دور کے پروجیکٹس بند کروائے۔ ہسپتال بند کروائے، میو ہسپتال کا سرجیکل ٹاور اتنا بڑا پروجیکٹ تھا وہ بند کروایا۔ پورے پنجاب میں منصوبے بند کروائے۔ اسی طرح انہوں نے کئی کالجوں کی عمارتیں بند کروائیں اور پنجاب کا بہت نقصان کروایا۔ وہ تکبر کے مارے ہوئے ہیں ان کو لگتا ہے جو کام وہ کرتے ہیں کوئی اور یہ کام کیسا کر سکتا ہے۔ آج بھی ان میں وہی تکبر نظر آتا ہے اور اس کی وہ سزا بھگت رہے ہیں اور آگے بھی بھگتیں گے۔‘
چوہدری پرویز الٰہی کے سابق دور حکومت میں انہوں نے پنجاب اسمبلی کی نئی عمارت بنانے کا منصوبہ شروع کیا تھا جو اب ان کے دوبارہ سپیکر بننے کے بعد مکمل ہوا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شہباز شریف نے منصوبہ مکمل نہیں ہونے دیا جس کی وجہ سے اس کی لاگت میں تین ارب روپے کا اضافہ ہوا۔
زرداری صاحب کا شکریہ
چوہدری پرویز الٰہی نے پیپلز پارٹی کی سیاست کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آصف زرداری وضع داری کی سیاست کرتے ہیں۔ انہوں نے سینیٹ انتخابات میں تحریک انصاف کی جیت پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ آصف علی زرداری نے ان کے کہنے پر سینیٹ انتخابات میں معاونت کی۔
’میں زرداری صاحب کا شکریہ ادا کرنے ان کے گھرگیا تھا کیونکہ سینیٹ میں اتنا بڑا کام ہوا ہے خود عمران خان صاحب نے مجھے کہا تھا کہ ہم تین سیٹیں ہار رہے ہیں۔ پیسہ بڑا چل رہا تھا۔ میں نے پانچ چھ دن محنت کی کیونکہ میری سب جماعتوں سے اچھے تعلقات ہیں تو اسی وجہ سے یہ ہار جیت میں تبدیل ہوئی۔ زرداری صاحب نے کاغذات واپس نہیں لیے تھے۔ پھر میں نے انہیں درخواست کی تو انہوں نے واپس لے لیے، سو میں اس بات کا شکریہ ادا کرنے گیا تھا۔ اور ابھی بھی دیکھیں کراچی میں جو اپوزیشن کا جلسہ ہوا ہے اس میں پیپلزپارٹی نہیں تھی۔‘
ایک سوال کے جواب میں کہ مسلم لیگ ق آئندہ انتخابات میں اپنے آپ کو پیپلز پارٹی کے ساتھ دیکھ رہی ہے یا تحریک انصاف کے ساتھ ؟ ان کا کہنا تھا سیاست میں کوئی دل نہیں ہوتا صرف حالات ہوتے ہیں۔ جیسے حالات ہوئے ویسا فیصلہ کریں گے۔‘
پنجاب حکومت تنقید سے مبرا نہیں
چوہدری پرویز الٰہی موجودہ مخلوط حکومت میں 2018 سے ہی سپیکر کے عہدے پر فائز ہیں، تاہم سپیکر ہونے کے باوجود انہوں نے کئی مرتبہ تحریک انصاف کی حکومت پر تنقید بھی کی اور بعض اوقات سخت بیانات بھی دیے جس سے یہ تاثر بھی ابھرا کہ حکومت اور ہمنوا جماعت کے مابین خلیج زیادہ بڑھی تو پھر پنجاب حکومت کا مستقبل کیا ہوگا؟
انہوں نے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہ ’ہم نے جیسے ہی مخلوط حکومت میں آنے کی ہامی بھری تو سب کچھ پہلے سے طے کیا۔ جیسے زرداری صاحب کے ساتھ ہم نے طے کیا تھا۔ اس وقت تو کسی دقت کا سامنا نہیں ہوا اور سب ٹھیک چلا۔ اب کی بار یہ ہوا کہ جو بات ہم نے طے کی اس میں ایک سال تاخیر کی گئی۔ دو وزیر ہمارے ایک سال بعد بنائے گئے۔ ہم ان کو سمجھا ہی سکتے ہیں اگر تنقید کرتے ہیں تو ان کی بہتری کے لیے کرتے ہیں۔ آخر میں پھر یہ خود ہی کہتے ہیں کہ ہم کہ رہے تھے یہ بہتر ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ شروع شروع میں بڑے مسائل آئے اور اسمبلی چلانا مشکل تھا۔ پرویز الٰہی نے انکشاف کیا کہ ان پر اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے پر دباؤ تھا۔
’یہ بات تو ہم انہیں سمجھاتے تھے، لیکن یہ مجھے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کرنے دیتے تھے۔ میں نے سمجھایا کہ اسے چلنے دیں فائدہ آپ کو ہی ہوگا۔ اب جا کر یہ بات سننا شروع ہوئے ہیں۔‘
پرویز الٰہی نے اس امکان کو مکمل طورپر رد کیا کہ وزیر اعلٰی پنجاب کے خلاف کسی قسم کی تحریک عدم اعتماد آسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’اپوزیشن پنجاب میں تحریک عدم اعتماد کا کہتی ہے، لیکن یہ ساری باتیں ہیں۔ پارٹی کو اور عمران خان کو بزدار صاحب پر اعتماد ہے اس لیے نہیں سمجھتا کہ پنجاب حکومت کو کوئی مسئلہ ہے۔‘