Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جبری گمشدگیوں کی قانون سازی سے ریاست جوابدہ ہوگی: شیریں مزاری

پاکستان کی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا ہے کہ جبری گمشدگیوں سے متعلق بل تمام سٹیک ہولڈرز نے منظور کر لیا ہے۔ جو جلد ہی قومی اسمبلی اور سینیٹ سے بھی منظور ہو جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ اڑھائی سال کی جنگ تھی جس کے لیے متعدد پیشیاں بھگتنا پڑیں اور سٹیک ہولڈرز کو قائل کرنا پڑا کہ لوگوں کو اٹھانے کی روایت کی جمہوریت میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
اردو نیوز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ ’اس سال کی بڑی کامیابیوں میں جبری گمشدگیوں سے متعلق بل پر تمام سٹیک ہولڈرز کو قائل کرنا سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اب یہ بل  اسمبلی نے قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بھیجا جہاں سے پاس ہو گیا ہے۔ اس کے بعد قومی اسمبلی میں پیش ہو کر پاس ہوگا اور سینیٹ جائے گا۔ امید ہے کہ وہاں سے بھی جلد پاس ہو جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ انتہائی اہم قانون سازی ہے کیونکہ اس میں آپ ریاست کو جواب دہ اور قابل احتساب بنا رہے ہیں کہ جب آپ کسی شہری کو شک کی بنیاد پر تشدد یا زیادتی کریں گے تو آپ سے قانون کے تحت پوچھا جائے گا۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ اس بل کی تیاری میں بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ یہ ایک حساس مسئلہ تھا۔
اگر میں آپ کو بتا دوں کہ یہ ایسا حساس مسئلہ ہے کہ پچھلی دو جمہوری طور پر منتخب حکومتیں جو کہتی تھیں انھوں نے اس پر زیرو کام کیا ہے۔ بلکہ کوئی بولتا ہی نہیں تھا۔ اس پر کوئی اکا دکا جیسے سینیٹر فرحت اللہ بابر بول لیتے تھے۔ لیکن حکومتوں نے کچھ نہیں کیا نہ ان کے کابینہ ارکان نے اس پر کوئی بات کی۔ ہماری پہلی حکومت ہے اور یہ ہمارے منشور میں تھا کہ ہم اس (جبری گمشدگی) کو ختم کریں گے۔ میں یاد دلاؤں کہ جب آمنہ جنجوعہ احتجاج کرتی تھیں تو وزیراعظم ان کے احتجاج میں گئے۔ میں بھی جاتی تھی یہ ہمارا ایک وعدہ تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’وزیراعظم شروع دن سے سو فیصد اس کے حامی تھے کہ قانون بنائیں لیکن آپ کو پتہ ہے کہ سٹیک ہولڈرز سے ڈسکشن کرنا ہوتی ہے۔ ایک چیز جو روایت ہی بن گئی تھی کہ اٹھا لیں لوگوں کو، اس مائنڈ سیٹ کو بدلنا، لوگوں کو قائل کرنا کہ جمہوریت میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے۔  وقت لگتا ہے اور لگا ہے وقت۔ کافی مباحثے ہوئے ہیں، پیشیاں ہوئی ہیں، آپ سمجھ لیں میری خاص طور پر، لیکن وزیراعظم کی مدد حاصل تھی۔ بالآخر ہم نے سب کو قائل کیا کہ یہ کسی کے لیے اچھا نہیں ہے۔ ریاست کے لیے اچھا نہیں ہے۔ اگر آپ اس (جبری گمشدگی) کو جرم قرار نہیں دیں گے تو یہ مشق ختم ہونی چاہیے۔

پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف انسانی حقوق کے کارکنان نے اپنی آواز بلند کی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

قانون سازی میں بیوروکریسی کے تاخیری حربوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ ’بیوروکریسی ہر چیز میں رکاوٹ ہے۔ بیوروکریسی کا گورننس کا نظام ایک دقیانوسی نظام ہے۔ اسی وجہ سے ہم اس میں اصلاحات لانے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ یہ نو آبادیاتی نظام ہے۔
انھوں نے کہا ’سیاسی حکومتوں کے لیے بیوروکریسی کی جانب سے تاخیری حربے سب سے بڑا مسئلہ ہیں۔ ایک تو چلیں حساس قوانین ہوتے ہیں جیسے جبری گمشدگیوں کا قانون وغیرہ اس میں سٹیک ہولڈرز کے مسائل  آتے ہیں۔ عام چیز اور حکومت کا جو عام کام ہے اس میں بیوروکریسی کا طریقہ کار اس میں اتنی تاخیر ہوتی ہے کہ اسے بتانے پورا دن لگ جائے۔
خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم اور ہراسگی کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ قوانین تو موجود بھی ہیں نئے قوانین بھی بن رہے ہیں جن میں ایک اینٹی ریپ آرڈیننس جلد بل کے ذریعے قانون بن جائے گا اور خصوصی عدالتیں بھی بن جائیں گی لیکن ان قوانین پر عمل در آمد بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’بالکل قوانین پر جس طرح عمل در آمد ہونا چاہیے اس طرح نہیں ہو رہا۔اس میں بہتری آنی چاہیے۔ لوگ کہتے ہیں سرعام ٹانگ دیں لوگوں کو جو بچوں کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں تو پھر لوگ نہیں کریں گے۔ سخت سزاؤں کی بات ہی نہیں ہے۔ ساکھ یہ کہ آپ قانون پر عمل در آمد کروائیں۔ جب قانون پر عمل در آمد کی یقین دہانی ہوگی قانون جو ہوگا وہ کام کرے گا اور وقت پر کرے گا تو جرائم میں کمی آئے گی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’آپ نے لوگوں کی ذہنیت بھی بدلنی ہے۔ قانون تو اسی وقت حرکت میں آئے گا جب جرم ہو جائے گا۔ لیکن یہ جرم ہو کیوں؟ لوگوں کی سوچ بدلنی ہے، لوگوں میں شعور پیدا کرنا ہے۔ آپ نے ایک طرف لوگوں کو بتانا ہے کہ یہ قوانین ہیں جن پر بالکل عمل در آمد ہوگا۔ دوسرا تعلیم اور آگاہی کے ذریعے سوچ بدلنی ہے اس میں ٹائم لگتا ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ’کل ہی ایک پارلیمانی کمیٹی میں تھی۔ جس میں کسی نے کہا جی کہ وہ عورت اکیلی کیوں مینار پاکستان پارک میں گئی تھی؟ تو میں نے کہا کہ آئین سب کو برابر حق دیتا ہے۔ صرف مردوں کے لیے ہی تو نہیں آئین بنا۔ تو آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ خود عورت پارک میں اکیلی نہ جائے۔ اگر جائے گی تو اس کا قصور ہے کہ چار سو بندہ اس پر تشدد کرتا ہے۔
اگر ہماری نوجوان نسل اس طرح کے تشدد پر تلی ہوئی ہے تو پھر آپ عورتوں پر پابندیاں کیوں لگا رہے ہیں آپ پھر ان لڑکوں پر پابندیاں لگائیں جو اپنے آپ کو سنبھال نہیں سکتے۔

شیریں مزاری کے مطابق اگر کسی نے وزیر اعظم کی سطح پر کوئی چیز کروانی ہے تو وزیر اعظم سے بات کرنا ہوگی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

وزیراعظم سے بات کرنا ہوگی نہیں تو بات ختم
 

پاکستان کی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا ہے کہ جو ملک پاکستان کے ساتھ جس سطح کے تعلقات رکھنا چاہتا ہے پاکستان اس کے ساتھ اسی سطح پر رابطے کرے گا۔ امریکہ کو اگر وزیراعظم کی سطح پر کوئی چیز کروانی ہے تو وزیراعظم سے بات کرنا ہوگی نہیں تو بات ختم۔
امریکی صدر جوبائیڈن کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے ساتھ براہ راست رابطہ نہ کرنے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں شیریں مزاری نے کہا کہ ’وزیراعظم کی پہلے دن سے یہ پوزیشن تھی کہ ہم نے امریکہ کے لیے جو کیا اس کی ہمیں ضرورت نہیں تھی۔ ہم جو جنگ میں گئے وہ غلط جنگ تھی۔ جب وزیراعظم عمران خان اقتدار میں آئے اور ٹرمپ نے ہمارے خلاف بولا تھا تو وزیراعظم نے بڑا سخت جواب دیا تھا۔ انھوں نے ٹویٹس کی پوری تھریڈ بھیجی تھی۔ وزیراعظم کی پوزیشن بڑی واضح ہے۔
انھوں نے کہا کہ کہ ’کسی ملک نے ہمارے ساتھ رابطہ رکھنا ہے تو رکھے جو ملک پاکستان سے تعلقات رکھنا چاہتا ہے پاکستان اس کے ساتھ اسی سطح پر رابطے کرے گا۔ اگست 2018 سے اب تک پاکستان میں امریکی سفیر ہی نہیں ہمارا کام تو چل رہا ہے۔ اگر امریکہ نے ہم سے اعلیٰ سطح پر رابطے کرنے ہیں تو ان کو اعلیٰ سطح کے بندے بھیجنے ہوں گے۔ اگر انھوں نے وزیراعظم کی سطح پر کوئی چیز کروانی ہے تو وزیراعظم سے بات کرنا ہوگی نہیں تو بات ختم۔
انھوں نے کہا کہ ’امریکہ کے مفاد میں ہے کہ پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات کو مناسب سطح پر لائے۔ اتنا بڑا سفارت خانہ بنا دیا ہے تو وہاں پر سفیر بھی بھیج دیں۔ ٹرمپ نے نامزدگی کی تھی لیکن حکومت تبدیل ہونے کی وجہ سے نیا سفیر نہیں آ سکا۔ ٹھیک ہے یہ ان کی ترجیحات ہیں تاہم فی الوقت امریکی حکومت اپنے عوام کو افغانستان میں جو کچھ ہوا ہے اس کے لیے جواب دیں۔

شیریں مزاری نے کہا کہ امریکہ کے مفاد میں ہے کہ پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات کو مناسب سطح پر لائے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

وزیراعظم عمران خان کے یورپی ممالک کے دورے نہ ہونے کے حوالے سے شیریں مزاری نے کہا کہ وزیراعظم نے دنیا کے دوروں کے بجائے پہلے پاکستان کے حالات ٹھیک کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’وزیراعظم اقوام متحدہ گئے تھے۔ جہاں انھوں نے خطاب کیا، جو بہت ضروری تھا۔ اس کے بعد وزیراعظم کی ترجیح تھی کہ پہلے پاکستان کے اپنے حالات ٹھیک کرنے ہیں۔ وزیراعظم کا ایجنڈا تھا کہ کرپشن ختم کرنے کے ساتھ ساتھ غریب طبقے کو اٹھایا جائے جو انھوں نے کیا ہے۔ پھر دو سال سے تو کورونا میں پھنسے ہوئے ہیں اس وجہ سے بھی دورے نہیں ہو رہے۔
ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ ’وزیراعظم سعودی عرب، امارات، ایران اور ملائیشیا گئے ہیں کیونکہ یہ سارے ہمارے قریبی اور دوست ممالک تھے۔ تاہم وزیراعظم کی ترجیح اپنے عوام کی فلاح و بہبود تھی اور یہ درست فیصلہ تھا۔ اس وجہ سے بھی کم دورے ہوئے ہیں۔

شیئر: