چین افغان طالبان کی عبوری حکومت سے بات چیت کے لیے تیار
چین افغان طالبان کی عبوری حکومت سے بات چیت کے لیے تیار
بدھ 8 ستمبر 2021 9:38
چین نے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے سربراہان کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے کیونکہ یہ ملک کی تعمیر نو کی طرف ’ضروری قدم‘ ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبنگ نے یہ بیان بیجنگ میں یومیہ بریفنگ کے دوران دیا، جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا چین نئی افغان حکومت کو تسلیم کرے گا یا نہیں۔
وانگ وینبنگ کا کہنا تھا کہ ’چین افغانستان کی خودمختاری، آزادی اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے۔‘
ان کا مزید کہ تھا کہ ’ہمیں امید ہے کہ افغانستان کے نئے حکام تمام حلقوں اور نسلوں کے لوگوں کی سنیں گے تاکہ اپنے لوگوں کی خواہشات اور بین الاقوامی برادری کی توقعات کو پورا کر سکیں۔‘
قبل ازیں خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی وزیر خارجہ قطر کا دورہ مکمل کرنے کے بعد جرمنی روانہ ہو گئے ہیں جہاں وہ امریکی ایئر بیس ریمسٹین کا بھی جائزہ لیں گے۔
جرمنی میں قائم امریکی ایئربیس پر افغانستان سے انخلا کرنے والے ہزاروں افراد کی رہائش کا عارضی بندوبست کیا گیا ہے۔ جبکہ تاریخ کے سب سے بڑے ایئر لفٹ کے دوران مسافروں کے لیے قطر میں ٹرانزٹ سہولیات مہیا کی گئی تھیں۔
امریکی وزیر خارجہ اپنے جرمن ہم منصب ہیکو ماس سے ملاقات کے بعد افغانستان میں مستقبل کے لائحہ عمل سے متعلق 20 ممالک کے وزرا پر مشتمل ورچوئل اجلاس کی صدارت کریں گے۔
امریکہ کی کوشش ہے کہ طالبان پر عالمی دباؤ ڈالا جائے کہ وہ افغان شہریوں کو ملک سے نکلنے کی مکمل آزادی دیں۔
اجلاس سے متعلق خیال کیا جا رہا ہے کہ مختلف ممالک کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہونے کا امکان ہے کہ طالبان کی عبوری حکومت کے ساتھ کیسے نمٹا جائے۔
منگل کو طالبان نے نئی کابینہ تشکیل دی تھی جس میں کسی خاتون کو شامل نہیں کیا گیا جبکہ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج حقانی کو وزیر داخلہ مقرر کیا گیا ہے جن کو امریکہ نے دہشت گرد قرار دیا ہوا ہے۔
امریکہ نے طالبان کی نئی حکومت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کے اقدامات کی بنیاد پر ان سے متعلق رائے قائم کی جائے گی۔ امریکہ نے واضح کر دیا ہے کہ طالبان کی حکومت کو سرکاری سطح پر فی الحال تسلیم نہیں کیا جا رہا۔
جرمنی نے امریکہ کے دیگر اتحادیوں کی طرح صدر جو بائیڈن کے صدارتی حریف ڈونلڈ ٹرمپ کو ہرانے پر خوشی کا اظہار کیا تھا۔ تاہم چند قریبی اتحادی ممالک نے صدر بائیڈن کے افغانستان سے جنگ ختم کرنے کے طریقہ کار پر تنقید کا اظہار کیا ہے، جو کابل میں مغربی حمایت یافتہ حکومت کے گرنے کا بھی سبب بنا۔
جرمنی کی حکمران جماعت اور صدارتی امیدوار آرمن لاشیٹ نے افغانستان میں مہم کو نیٹو کی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ قرار دیا تھا۔
امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ افغانستان میں سفارتی اور معاشی سطح پر اثرو رسوخ قائم رکھنے کے لیے اتحادیوں کے ساتھ کام کریں گے۔
سیکریٹری بلنکن نے قطر میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ کا کسی بھی ملک کے ساتھ رابطے رکھنے کو صرف فوجیوں کی تعیناتی کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے، جبکہ امریکہ اس سے کہیں زیادہ وسیع بنیادوں پر تعلقات رکھتا ہے۔
خیال رہے کہ سنہ 2019 میں افغانستان کی حکومت کے عوامی اخراجات میں سے 75 فیصد عالمی امداد کے ذریعے ادا کیے گئے تھے، جبکہ اشرف غنی کی مغربی حمایت یافتہ حکومت کے گرنے کے بعد ملک کے معاشی حالات مزید خراب ہو گئے ہیں۔