وزیر برائے ارشاد و دعوت شیخ محمد خالد کا تعلق پشائی قوم سے جن کی تعداد افغانستان میں چند ہزاروں میں ہے۔
طالبان نے حکومت سازی کے عمل میں ان تمام جماعتوں کو نظر انداز کیا ہے جنہوں نے نہ صرف سوویت یونین کے خلاف جہاد میں اہم کردار ادا کیا تھا بلکہ طالبان کی پہلی حکومت گرانے میں امریکہ کا ساتھ دیا، اور بعد میں بننے والی حکومتوں میں بھی نمایاں عہدوں پر فائز رہے۔
طالبان نے عام معافی کے اعلان کے باوجود ان میں سے کسی بھی جماعت کے رہنما کو عبوری حکومت کا حصہ نہیں بنایا۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے نتیجے میں شروع ہونے والے بین الافغان مذاکرات کا مقصد اجتماعی حکومت کا قیام تھا جس میں طالبان کے ہمراہ ان تمام گروہوں، مذہبی و سیاسی جماعتوں اور شخصیات کو شامل کیا جانا تھا جن کا پچھلے 40 سال سے افغانستان کے سیاسی حالات میں واضح عمل دخل رہا ہے۔
15 اگست کی شام کو جب طالبان چاروں اطراف سے کابل میں داخل ہو رہے تھے، تو دوسری جانب صدارتی محل میں اشرف غنی فرار ہونے کی تیاری کر رہے تھے، اسی وقت شمالی افغانستان کے غیر پشتون قائدین کا ایک وفد پاکستان پہنچا تھا۔
تین روزہ دورے میں اس وفد نے پاکستان کی اعلیٰ قیادت سے ملاقاتیں بھی کیں اور ان تمام ملاقاتوں میں ایک ہی پیغام دیا گیا کہ 'وہ تمام معاملے کا پر امن حل چاہتے ہوئے آئندہ بننے والی حکومت میں نمایاں نمائندگی چاہتے ہیں۔'
لیکن طالبان نے ملک پر قبضے کے بعد اور حکومت سازی کے عمل کے دوران جب دیگر سیاسی رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ شروع کیا تو غیر پشتون رہنماؤں میں سے صرف ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ ہی ان ملاقاتوں میں شامل تھے، جو اعلیٰ مصالحتی کونسل کے سربراہ بھی ہیں۔
اعلیٰ مصالحتی کونسل کے نائب سربراہ مولوی عطاالرحمان سلیم نے اردو نیوز کو بتایا کہ '15 اگست کو افغانستان میں جب سیاسی منظر نامہ اچانک تبدیل ہوا تو پاکستان میں موجود غیر پشتون قائدین کے وفد میں سے اکثر ارکان طالبان کے خوف سے کابل واپس ہی نہیں گئے۔'
انہوں نے بتایا کہ 'وفد میں شامل پنجشیری کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بھائیوں میں سے احمد ضیا مسعود شارجہ جبکہ احمد ولی مسعود برطانیہ جا چکے ہیں۔'
'احمد شاہ مسعود کے قریبی ساتھی اور سابق نائب صدر یونس قانونی نے ترکی کا رخ کیا، ہزارہ برادری کے دو اہم رہنما اور سوویت یونین کے خلاف جہاد لڑنے والے استاد محمد محقق ترکی جبکہ کریم خلیلی ایران میں ہیں۔ بلخ کے سابق گورنر عطا محمد نور غالباً دبئی میں ہیں تاہم ان کا ایک گھر ترکی میں بھی ہے۔'
سابق صدر اشرف غنی کی طرح غیر پشتون قائدین کے میدان چھوڑ کر چلے جانے سے نہ صرف ان کی ساکھ متاثر ہوئی ہے بلکہ غیر پشتون قومیتوں کو مایوس کن صورتحال کا سامنا ہے۔
استاد محمد محقق کے قریبی ساتھی اور کابل سے شائع ہونے والے ایک بڑے اخبار ’آؤٹ لک افغانستان‘ کے بانی ڈاکٹر حسین یاسا نے بتایا کہ تمام قائدین افغانستان سے باہر کسی اور ملک میں جلد اکھٹے ہوں گے جہاں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
انہوں نے حکومت میں نمائندگی کے حوالے سے کہا کہ ’افغانستان یا ہمارا ہوگا یا کسی کا نہیں ہوگا، اگر ہم سب نے سر اٹھایا تو پھر خون خرابہ ہوگا۔‘
افغانستان میں اہم سٹیک ہولڈرز کون کون ہیں؟
غیر پشتون رہنماؤں کی سوویت یونین کے خلاف جنگ میں فتح اور بعد ازاں 1992 میں نجیب اللہ حکومت کا تختہ الٹنے سے افغانستان کی سیاست میں پشتونوں کے اثر و رسوخ میں کمی آئی ہے اور دیگر قومیتوں کو بھی نمائندگی کا موقع ملا ہے۔
اس دوران تقریباً آدھے ملک پر سے پشتونوں کی طاقت کا زور ٹوٹا جس کے نتیجے میں وہاں کے مقامی رہنماؤں نے اپنے صوبوں کا کنٹرول سنبھالا۔
شمالی اور مغربی صوبوں کا سیاسی اور عسکری کنٹرول ازبک اور تاجک رہنماوں نے حاصل کیا، پنجشیریوں نے شمال مشرقی علاقوں کی نمائندگی کی، جبکہ ہزارہ جات کے مفادات کا تحفظ شیعہ ہزارہ رہنما کرتے رہے ہیں۔
گذشتہ 40 سالوں میں غیر پشتون قومیتیں ایسی طاقت بن کر ابھری ہیں کہ موجودہ حکومت میں ان کی واضح نمائندگی پر زور دیا جا رہا ہے۔
تاجک قوم کے نمائندے
افغانستان میں پشتونوں کے بعد تاجک قوم کی دوسری بڑی اکثریت ہے جو شمالی، شمال مشرقی اور مغربی صوبوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔
تاجک قوم کی نمائندگی کرنے والوں میں سابق نائب صدر ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ، بلخ سے تعلق رکھنے والے جہادی کمانڈر اور سابق گورنر عطا محمد نور، ہرات سے تعلق رکھنے والے جہادی کمانڈر اور سابق گورنر اسماعیل خان اور بدخشاں سے تعلق رکھنے والے صلاح الدین ربانی ہیں۔
جبکہ تاجکوں میں ہی پنجشیری گروپ بھی کافی اثر و رسوخ رکھتا ہے جن میں سابق سپیکر یونس قانونی اور احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود نمایاں ہیں۔
پنجشیریوں نے نامور کمانڈر احمد شاہ مسعود کی سربراہی میں افغان کمیونسٹ جماعتوں کی مخالفت کی، سوویت یونین کے خلاف گوریلا جنگ کی قیادت کی، طالبان کے خلاف شمالی اتحاد تشکیل دیا جس نے غیر پشتون قومیتوں کی بھرپور ترجمانی کی۔ اگرچہ اس میں چند پشتون جماعتیں بھی شامل تھیں۔
اپریل 1992 میں بننے والی مجاہدین کی حکومت میں بھی احمد شاہ مسعود کو وزارت دفاع کا قلمدان سونپا گیا جبکہ 2001 کے بعد بننے والی حکومتوں میں بھی دفاع اور انٹیلی جنس کے عہدوں پر پنجشیری ہی فائز تھے۔
ان تمام رہنماؤں کو نہ صرف ایک قومیت نے یکجا رکھا ہوا ہے بلکہ یہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت جمعیت اسلامی افغانستان کے رکن بھی ہیں۔ جس کی سربراہی 1972 سے لے کر 2011 تک استاد برہان الدین ربانی کے پاس تھی۔
استاد برہان الدین ربانی کی خود کش حملے میں ہلاکت کے بعد سے جماعت کی سربراہی ان کے بیٹے صلاح الدین ربانی کر رہے ہیں۔
ازبک قوم کے نمائندہ عبدالرشید دوستم
ازبک قوم کی نمائندگی کرنے والے سابق نائب صدر عبدالرشید دوستم نے ملک کی 40 سالہ جنگی تاریخ میں افغانستان کے مضبوط ترین ملیشیا کی قیادت اپنے آبائی صوبہ جوزجان سے کی۔
مارشل دوستم نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز افغانستان کی کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت سے کیا اور بعد ازاں 1973 میں افغان آرمی کا حصہ بن گئے۔
انہوں نے صدر نجیب اللہ کے دور حکومت میں مجاہدین کمانڈروں کے خلاف شمالی افغانستان کا دفاع کیا، لیکن بعد میں انہی مجاہدین کمانڈروں کے ساتھ مل کر ڈاکٹر نجیب اللہ کو اقتدار سے ہٹایا۔
اس کے بعد شروع ہونے والی طاقت کی جنگ میں رشید دوستم نے کئی بار وفاداریاں تبدیل کیں۔ طالبان کو شمالی افغانستان سے نکالنے میں امریکہ کا ساتھ دیا۔
2001 کے بعد بننے والی حکومتوں میں بھی وہ اہم عہدوں پر فائز رہے۔ عبدالرشید دوستم کا ملیشیا مبینہ طور قتل، ریپ، لوٹ مار اور تشدد کے واقعات میں بھی ملوث رہا۔
تاہم طالبان کی حالیہ مہم کے دوران جوزجان کا شہر شبرغان طالبان کے آگے ہتھیار ڈالنے والا دوسرا صوبائی دارالحکومت تھا۔
ہزارہ قوم کے استاد محمد محقق اور کریم خلیلی
ہزارہ قوم کے معتبر رہنما عبدالعلی مزاری کی 1995 میں طالبان کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد استاد محمد محقق اور کریم خلیلی لیڈر بن کر ابھرے ہیں۔ ان تینوں رہنماؤں نے سوویت یونین کے خلاف جہاد میں حصہ لیا، طالبان کے خلاف مزاحمت کی اور شیعہ ہزارہ قوم کے مفادات کا تحفظ کیا۔
ہزارہ آبادی کی اکثریت افغانستان کے مرکزی صوبوں میں پھیلی ہوئی ہے جنہیں ہزارہ جات کے نام سے بھی منسوب کیا جاتا ہے۔
استاد محقق کا تعلق شمالی صوبہ بلخ سے ہے جبکہ کریم خلیلی مرکزی صوبہ وردک کے رہنے والے ہیں۔ حامد کرزئی کی عبوری کابینہ میں استاد محقق کو نائب صدر مقرر کیا گیا تھا، 2009 کے انتخابات میں انہوں نے صدر کرزئی کی حمایت کی تھی۔
وہ سابق صدر اشرف غنی کے مشیر بھی رہ چکے ہیں۔ جبکہ کریم خلیلی کو مجاہدین کی حکومت میں وزیر خزانہ کا قملدان سونپا گیا تھا، 2001 کے بعد بننے والی حکومت میں وہ 10 سال نائب صدر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ یہ دونوں رہنما مذہبی وابستگی کے باعث ایران کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں۔