افغان خواتین کی جونیئر فٹ بال ٹیم کی برطانوی حکومت سے سیاسی پناہ کی درخواست
افغان خواتین کی جونیئر فٹ بال ٹیم کی برطانوی حکومت سے سیاسی پناہ کی درخواست
ہفتہ 2 اکتوبر 2021 22:17
15 ستمبر کو افغان جونیئر فٹبال کی ٹیم براستہ طورخم پاکستان پہنچی تھی۔ (فوٹو: اے پی)
افغان خواتین کی جونیئر فٹ بال ٹیم نے برطانوی حکومت سے سیاسی پناہ کی درخواست کی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان سے نکلنے کے بعد خواتین کی فٹ بال ٹیم لاہور کے ایک ہوٹل میں ٹھری ہوئی ہے اور 12 اکتوبر کو ایمرجنسی ویزوں کی مدت ختم ہونے کے بعد ان کو پاکستان چھوڑنا ہوگا۔
35 لڑکیاں جن کی عمریں 13 سے 19 کے درمیان ہیں اور 94 کوچز اور ان سب کے خاندان کے افراد کو روکٹ فاؤنڈیشن مالی مدد فراہم کر رہی ہے۔
خواتین کی یہ فٹ بال ٹیم اپنے گھروں کو واپس نہیں جا سکتی کیونکہ ان کو طالبان کی طرف سے خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ٹیم کے ایک رکن نرگس نے سکائی نیوز کو بتایا کہ ’ہم سب کو صرف اتنا معلوم ہے کہ ہم افغانستان دوبارہ واپس نہیں جا سکتے۔ اگر آپ ہمیں اپنے ملک میں تسلیم کرتے ہیں تو ہم بہت خوش ہوں گے کہ ہم برطانیہ میں رہ سکتے ہیں اور برطانیہ ہمارا میزبان ملک ہوگا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم سب آپ کی حکومت اور امدادی اداروں سے صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے لیے ایک میزبان ملک ڈھونڈیں۔‘
انہوں نے کہا کہ اگر ’ہمیں کوئی میزبان مل جاتا ہے تو ہمیں ایک نئی زندگی مل جائے گی اور مستقبل میں اچھے فٹ بال پلیئرز ہوں گے۔‘
برطانیہ نے اگلے چند برسوں میں 20 ہزار افغانوں کو اپنے ملک میں جگہ دینے کا وعدہ کیا ہے۔
افغانستان کی سینیئر فٹ بال ٹیم کو آسٹریلیا نے پناہ دی ہے تاہم جونیئر ٹیم کو افغانستان سے نکلنے میں مشکلات کا سامنا رہا۔
نرگس کا کہنا ہے کہ ’طالبان پُرتشدد تھے۔ انہوں نے ہمیں دھمکایا، ہمیں نہیں معلوم کہ تم کون ہو اگر تم سرحد پار نہیں کر سکتے تو ہم تم سب کو یہاں مار دیں گے۔ یہ ہمارے لیے بڑا مشکل تھا کہ جہاں آپ پیدا ہوئے ہو اور پلے بڑھے ہو۔ اب بھی ایسا کوئی ملک نہیں جو ہمیں پناہ گزینوں کے طور پر تسلیم کریں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ان دنوں کے بعد ہمارے ساتھ کیا ہوگا اور ہم کیا کر سکتے ہیں۔‘
کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ وہ پڑھنا چاہتی ہیں اور فٹ بال کھیلنا چاہتی ہیں۔
نرگس نے کہا کہ ’ایسے سخت حالات میں ہم فٹ بال کھیل رہے تھے۔ ہمیں فٹ بال سے واقعی میں محبت ہیں۔ ہمارے لیے اس کا مطلب آزادی ہے۔ جب ہم اکھٹے ہوتی ہیں تو ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم زندہ ہیں۔‘
روکٹ فاؤنڈیشن کی سربراہ این میری گِل کا کہنا ہے کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ برطانیہ کی حکومت ان کو ویزے دیں۔ اگر ہم ان کے لیے میزبان ملک ڈھونڈ نہ سکیں تو ان کو سرحد پر واپس لے جایا جائے گا۔‘