Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نور مقدم قتل کیس، ملزمان پر فرد جرم کے لیے 14 اکتوبر کی تاریخ مقرر

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے نور مقدم قتل کیس کے ملزمان کی ڈیجیٹل ثبوت مہیا کرنے سے متعلق درخواست خارج کرتے ہوئے ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے 14 اکتوبر کی تاریخ مقرر کر دی ہے۔
جمعرات کو نور مقدم کیس کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت چھ ملزمان کو اسلام آباد کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا۔
دوران سماعت ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے 14 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی۔
گذشتہ روز کمرہ عدالت میں دوران سماعت جج عطاء ربانی اور ملزم ظاہر جعفر کے درمیان مکالمہ ہوا تھا۔ ملزم ظاہر جعفر نے انگریزی میں جج سے مخاطب ہو کر کہا تھا’مجھے آزادنہ طور پر بات کرنے کا موقع دیا جائے، میں 90 روز سے زیر حراست ہوں، عدالت کا کیا پلان ہے۔ فیصلہ کب آئے گا؟‘ 
جج عطاء ربانی نے کہا ’عدالت کا پلان نہیں ہوتا عدالتی کارروائی ہوتی ہے، آپ اپنے وکیل کے ذریعے بات کریں جو بھی ہوگا وہ آپ کو بتا دیں گے۔‘ 
ملزم ظاہر جعفر نے کہا کہ ’امریکی سفارتخانے نے مجھے وکیل فراہم کرنے پیشکش کی ہے اور ایک فہرست مجھے بھیجی ہے لیکن مجھے ابھی تک وہ فہرست نہیں ملی۔‘
دوران سماعت ملزمان کے وکیل نے کہا کہ آرٹیکل 10 اے فیئر ٹرائل کا حکم دیتا ہے، فرد جرم عائد کرنے کے لیے سات روز کا وقت کم ہے چار ہفتوں کا وقت دیا جائے۔ 
درخواست میں کہا گیا کہ ملزم کو معلوم ہی نہیں کہ چالان کے ہمراہ اس کے خلاف کیا ثبوت ہیں، چیزیں خفیہ رکھ کر فیئر ٹرائل کا حق پورا نہیں ہو سکتا۔ 
ملزمان کے وکیل نے کہا کہ فرانزک رپورٹ، سی سی ٹی وی فوٹیج اور دیگر ریکارڈنگز ہمیں فراہم کی جائیں۔ 
مدعی کے وکیل شاہ خاور نے عدلات کو بتایا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج، یو ایس بی اور دیگر ریکارڈنگ سیلڈ ہیں، اس لیے فراہم نہیں کی گئیں۔
عدالت نے تینوں درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے جمعرات تک کیس کی سماعت ملتوی کی تھی۔

شیئر: