ایران: عالمی ادارے کی بتائی مقدار سے زیادہ افزودہ یورینیم کی تیاری
ایران: عالمی ادارے کی بتائی مقدار سے زیادہ افزودہ یورینیم کی تیاری
پیر 11 اکتوبر 2021 6:33
ایران نے 20 فیصد تک افزودہ یورینیم کی 120 کلوگرام سے زیادہ مقدار پیدا کی ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
ایران کے جوہری ادارے کے سربراہ نے کہا ہے کہ ان کے ملک نے 20 فیصد تک افزودہ یورینیم کی 120 کلوگرام سے زیادہ مقدار تیار کی ہے۔ یہ اس مقدار سے کئی گنا زیادہ ہے جو اقوام متحدہ کی متعلقہ ایجنسی نے گذشتہ ماہ رپورٹ میں بتائی تھی۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ایران کے جوہری ادارے کے سربراہ محمد اسلامی نے سرکاری ٹی وی کو سنیچر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ عالمی طاقتوں کے ساتھ ہونے والے سنہ 2015 کے جوہری معاہدے کے تحت دیگر دستخط کنندہ ملکوں کو ایران کو اس کے ریسرچ ری ایکٹر کے لیے درکار 20 فیصد تک افزودہ یورینیم فراہم کرنا تھی۔
’تاہم اسے فراہم نہیں کیا گیا۔ اگر ہم اسے خود نہ بناتے تو یہ ہمارے لیے ایک مسئلہ بن جاتا۔‘
جوہری معاہدے کی شرائط کے تحت، ایران کو یورینیم افزودہ کرنے کے لیے 3.67 فیصد کی حد بتائی گئی تھی اور صرف ریسرچ ری ایکٹر کی سرگرمیوں کے لیے رعایت دی گئی تھی۔
واضح رہے کہ 90 فیصد سے زیادہ افزودہ یورینیم کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
رواں برس ستمبر میں، اقوام متحدہ کی بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی نے کہا تھا کہ ایران کے پاس 20 فیصد تک افزودہ یورینیم کے تقریباً 84.3 کلوگرام ہیں۔ اس سے تین ماہ پہلے یہ تعداد 62.8 کلوگرام تھی۔
سائنسدانوں کے مطابق بم بنانے کے لیے 20 فیصد تک افزودہ یورینیم کے کم از کم 170 کلوگرام کی ضرورت ہوتی ہے۔
مشترکہ جامع ایکشن پلان نامی 2015 کے جوہری معاہدے کے تحت ایران کو اپنا جوہری پروگرام محدود کرنے کے بدلے اقتصادی مراعات ملنی چاہئیں۔ اس معاہدے کا مقصد تہران کو جوہری بم بنانے سے روکنا ہے۔
تاہم تہران کا کہنا ہے کہ اس کا پروگرام پُرامن ہے۔
امریکہ نے 2018 میں اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے زیر سایہ اس ڈیل سے دستبرداری اختیار کر لی تھی۔ تاہم برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین اور روس نے اس معاہدے کو قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔
اے پی کے مطابق تہران کی دانستہ طور پر ڈیل کی خلاف ورزی کرنے کی سٹریٹیجی کو یورپ پر دباؤ کہا جا رہا ہے تاکہ وہ ایران کو مراعات فراہم کرے۔
ایران کو ان مراعات کی ضرورت اس لیے ہے تاکہ وہ امریکہ کی پابندیوں کے اثرات سے نمٹ سکے۔
یاد رہے کہ امریکہ نے معاہدے سے دستبرداری اختیار کرنے بعد ایک بار پھر ایران پر پابندی لگا دی تھی۔
تاہم امریکہ کے موجودہ صدر، جو بائیڈن، نے کہا ہے کہ وہ واپس معاہدے کا حصہ بننے کو تیار ہیں۔
مذاکرات کا حال ہی میں ہونے والہ سلسلہ جون میں ویانا میں اختتام پذیر ہوا تھا اور اس کے کوئی واضح نتائج نہیں آئے تھے۔