بلوچستان عوامی پارٹی کے ناراض گروپ کے ترجمان رکن بلوچستان اسمبلی سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا ہے کہ ’صبح اسمبلی اجلاس کے بعد سپیکر اسمبلی عبدالقدوس بزنجو اپنے عہدے سے استعفی دے دیں گے۔ نئے اسپیکر کے انتخاب کے بعد وزیراعلی کا انتخاب عمل میں لائیں گے۔‘
گذشتہ رات کوئٹہ میں میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ’آئندہ دو دنوں میں نئی حکومت بنالیں گے۔ اپوزیشن بھی ہمارے ساتھ ہوگی۔ پرانی حکومت میں شامل اتحادیوں سمیت سب کو ساتھ لے کر چلیں گے۔‘
عبدالرحمان کھیتران کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان کے عوام کو بہترین وزیراعلی دیں گے جس کے گردن میں سریا نہیں ہوگا۔‘
مزید پڑھیں
-
جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیشNode ID: 610916
-
اپنے مستقبل کا اختیار باپ پارٹی اور اتحادیوں کو دے دیا: جام کمالNode ID: 611926
اس سے قبل پاکستان کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری سے ایک دن پہلے ہی وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دے دیا۔
جام کمال نے اتوار کو اپنا استعفیٰ گورنر بلوچستان کو پیش کیا۔
گورنر ہاؤس کے ترجمان نے ایک بیان میں تصدیق کی ہے کہ جام کمال خان نےاتوار کی رات کو گورنر کو اپنا استعفیٰ پیش کیا جو گورنر سید ظہور احمد آغا نے قبول کر لیا۔
وزیراعلیٰ ہاؤس کے ذرائع کے مطابق جام کمال خان نے استعفیٰ دینے سے قبل وزیراعلیٰ ہاؤس میں بلوچستان عوامی پارٹی میں اپنے حامی ارکان اور اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں سے مشاورت کی۔
جام کمال کے خلاف بلوچستان اسمبلی میں ان کی اپنی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے ناراض ارکان نے 20 اکتوبر کو تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی جس پر رائے شماری کے لیے سپیکر نے 25 اکتوبر کا دن مقرر کیا تھا۔
مخلوط صوبائی حکومت میں شامل اتحادی جماعت بی این پی عوامی، تحریک انصاف کے ایک رکن اور حزب اختلاف نے بھی تحریک عدم اعتماد کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔
اتوار کو اپنے آفیشل اکاؤنٹ سے ایک ٹویٹ میں جام کمال کا کہنا تھا کہ ’میں نے اپنا اختیار اپنے گروپ بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین اور اتحادیوں کو دیا۔ موجودہ منظر نامے کے لیے جو بھی بہتر ہوگا، وہ فیصلہ ہوگا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر پی ڈی ایم جیت جاتی ہے اور ناراض ممبران کے ساتھ حکومت بناتی ہے تو ہم اپوزیشن میں بھی بیٹھنے کو تیار ہیں۔‘
تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے بلوچستان اسمبلی کے 65 میں سے 33 ارکان کی ضرورت تھی۔
عدم اعتماد کے حامی ارکان کی تعداد 40 سے زائد تھی اس لیے جام کمال نے اسمبلی میں عدم اعتماد کی قرارداد کا سامنا کرنے کے بجائے استعفیٰ دے دیا۔
جام کمال نے وزیراعلیٰ ہاؤس میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک سے ملاقات کے بعد منصب چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
اس سے قبل جام کمال نے اسمبلی میں اعلان کیا تھا کہ چاہے دو ووٹ بھی ملیں لیکن مقابلہ کیے بغیر عہدہ نہیں چھوڑیں گے۔
بلوچستان کی سیاست اور جام کمال خان
بلوچستان کے ضلع لسبیلہ سے تعلق رکھنے والے جام کمال اگست 2018 میں بلوچستان کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تھے۔ وہ تین سال اور دو ماہ تک اس منصب پر فائز رہے۔
ان کے مستعفی ہونے کے بعد سپیکر عبدالقدوس بزنجو کی رہائشگاہ پر موجود جام مخالف ارکان نے خوشی منائی اور مٹھائیاں تقسیم کیں۔
جام کمال نے استعفیٰ دینے سے کچھ گھنٹوں قبل ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ 'بہت سی سوچی سمجھی سیاسی رکاؤٹوں کے باوجود میں نے بلوچستان کی مجموعی حکمرانی اور ترقی کے لیے اپنے وقت اور توانائی کو ایک سمت میں رکھا۔ انشااللہ احترام کے ساتھ چھوڑنا چاہوں گا اور خراب حکمرانی کی تشکیل کے ساتھ ساتھ ان کے (ناراض گروپ، اپوزیشن) مالیاتی ایجنڈے کا حصہ نہیں بنا چا ہونگا۔‘
It has been an honour to be part of such quality people from BAP, ANP, PTI, HDP and JWP... Who showed grace and stood despite major offers and promises.
بی اے پی، اے این پی، پی ٹی آئی، ایچ ڈی پی اور جے ڈبلیو پی کے ایسے معیاری لوگوں کا حصہ بننا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ pic.twitter.com/NLxWWzLc7y
— Jam Kamal Khan (@jam_kamal) October 24, 2021