امریکی سیاستدانوں کا ایرانی صدر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ
امریکی سیاستدانوں کا ایرانی صدر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ
جمعہ 29 اکتوبر 2021 6:07
ایرانی صدر کے خلاف ’نسل کشی اور انسانیت‘ کے خلاف جرائم کی بنیاد پر قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
امریکی کانگریس کے کئی سابق ارکان نے ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے خلاف 1988 میں 30 ہزار سیاسی قیدیوں کے قتل میں کردار کی وجہ سے ’نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم‘ کی بنیاد پر قانونی کارروائی کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔
امریکہ کی اہم سیاسی شخصیات نے یہ بات ایرانی نیشنل کونسل آف ریزسٹنس (این سی آر آئی) کے ایک سیمینار میں کہی۔
عرب نیوز کے مطابق ابراہیم رئیسی نے رواں برس اگست میں صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا ہے اور انہوں نے اپنی کابینہ میں پاسداران انقلاب کے سینیئر ارکان کو شامل کیا ہے جن میں سے کئی ایک پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم کے الزامات ہیں۔
این سی آر آئی کے عہدے داروں کے مطابق اس وقت ابراہیم رئیسی کی کابینہ میں 19 ایسے افراد شامل ہیں جن کا تعلق امریکہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دی گئی تنظیم پاسداران انقلاب سے ہے۔
امریکہ کے سابق نائب صدر مائیک پینس نے سابق سینیٹرز جوزف لائبرمین، رابرٹ ٹوریسلی، سابق اٹارنی جنرل مائیکل مکاسے اور سابق جنرل جیمز کانوے کے اس مطالبے کی حمایت کی کہ ابراہیم رئیسی کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔
مائیک پینس نے واشنگٹن ہلٹن کے گرینڈ بال روم میں منعقدہ سمٹ میں تقریباً ایک ہزار افراد کے ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ایران کے صدر کے طور پر ابراہیم رئیسی کا حالیہ انتخاب ایرانی کومت کی بڑھتی ہوئی کمزوری اور مایوسی کی علامت ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’صدر کے طور پر ابراہیم رئیسی کے انتخاب کا مقصد اندرونی اختلاف کو ختم کرنا اور ایرانی عوام کو خاموش رکھنے کے لیے ڈرانا ہے لیکن ہمیں برائی کے سامنے کبھی خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ آج یہاں موجود بہت سے لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ رئیسی کتنی بڑی برائی ہیں۔‘
امریکہ کے سابق نائب صدر مائیک پینس نے بھی صدر رئیسی کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پینس نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے روکنے کے لیے کیے گئے اقدامات کا دفاع کیا اور صدر جو بائیڈن کے جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (جسے ایران جوہری معاہدہ بھی کہا جاتا ہے) کو دوبارہ قبول کرنے پر تنقید کی۔
یاد رہے کہ 1988 کے موسم گرما میں ایرانی حکومت نے 30 ہزار سیاسی قیدیوں کو خفیہ اجتماعی پھانسی دی، جن میں سے 90 فیصد کا تعلق ایران کے مرکزی اپوزیشن گروپ مجاہدینِ خلق سے تھا۔ این سی آر آئی حکام نے بتایا کہ رئیسی قتل عام کو انجام دینے کے لیے ذمہ دار ’ڈیتھ کمیشن‘ کے رکن تھے۔
دسمبر 2018 میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک جامع رپورٹ جاری کی جس میں 1988 کے قتل عام کو ’انسانیت کے خلاف جرم‘ قرار دیا گیا۔ 117 ویں امریکی کانگریس میں ایوان کی قرارداد 118 نے بھی اس قتل عام کو ’انسانیت کے خلاف جرم‘ قرار دیا اور احتساب کا مطالبہ کیا۔
صدر کے طور پر اپنے انتخاب کے بعد جو بائیڈن نے ایران کے ساتھ 2015 کی جوہری ڈیل میں دوبارہ شمولیت پر مذاکرات کا آغاز کیا۔ ایران، امریکہ اور دیگر طاقتوں کے مابین طے پانے والے معاہدے نے پابندیوں میں نرمی کے بدلے ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کر دیا تھا۔ پھر 2018 میں صدر ٹرمپ نے معاہدے سے دستبرداری اختیار کی اور پابندیاں بحال کردیں۔
این سی آر آئی کے رہنماؤں اور ان کے اتحادیوں کا کہنا ہے کہ تہران ایٹمی مذاکرات کو کور اور خلفشار کے طور پر استعمال کر رہا ہے جبکہ وہ جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔