شادی سے محرومی کے مقدمات ترجیحی بنیادوں پرنمٹائے جاتے ہیں (فوٹو: ٹوئٹر)
سعودی عدالتوں نے شادی سے محروم کی جانے والی 23 لڑکیوں کے نکاح کے احکامات جاری کر دیے ہیں-
عکاظ اخبار کے مطابق مملکت کے مختلف علاقوں میں گذشتہ چار ماہ کے دوران 23 لڑکیوں نے الگ الگ تاریخوں میں شکایات درج کرائی تھیں کہ ’انہیں ان کے سرپرست جان بوجھ کر شادی سے محروم کیے ہوئے ہیں-‘
ان کے مطابق ’رشتے آتے ہیں مگر سرپرستوں کی جانب سے انہیں مسترد کرددیا جاتا ہے-‘
عدالتوں نے ہر مقدمے کو الگ طریقے سے دیکھا اور سنا- ججوں نے تسلیم کیا کہ دعوے حق بجانب ہیں اور لڑکیوں کو جان بوجھ کر شادی کے حق سے محروم کرتے ہوئے سرپرستی کا ناجائز فائدہ اٹھایا جا رہا ہے-
یاد رہے کہ وزیر انصاف ڈاکٹر ولید الصمعانی نے جو اعلیٰ عدالتی کونسل کے سربراہ بھی ہیں، سخت ہدایات دے رکھی ہیں کہ شادی سے محرومی کے مقدمات ترجیحی بنیاد پر تیزی سے نمٹائے جائیں-
سعودی وزارت انصاف نے شادی سے محروم کرنے کے رواج کی بیخ کنی کے لیے متعدد ضوابط مقرر کیے ہیں-
شادی سے محرومی کا دعویٰ متاثرہ لڑکی خود بھی دائر کرسکتی ہے علاوہ ازیں ماں یا بہن بھی دعوی پیش کرسکتی ہے- دعوے کے اندراج کے لیے منگیتر کو عدالت میں پیش کرنا ضرور نہیں-
وزارت انصاف نے اس حوالے سے ایک اور سخت قانون یہ مقرر کردیا ہے کہ شادی سے محرومی کا دعویٰ 30 روز کے اندر نمٹایا جانا ضروری ہے-
انتہائی مجبوری کے تحت ہی مقررہ تاریخ میں تبدیلی کی جاسکتی ہے- تاریخ آگے بڑھاتے وقت واضح کرنا ہوگا کہ ملتوی کرنے کا سبب کیا ہے- دس روز سے زیادہ اس قسم کا کیس ملتوی نہیں کیا جاسکتا-