یہ جون 1967 کا قاہرہ ہے۔ موسیقی کی ایک محفل میں مصری گلوکارہ کے لہجے کا سوز اور کلام کی روح میں اترتی تاثیر حاضرین کو اشکبار کر دیتی ہے۔
خاتون گلوکار کی منتخب کردہ شاعری کے مضمون اور مصر کے اس دور کے حالات میں مطابقت نے محفل کے مزاج اور ماحول میں رقت آمیزی اور شکوہ کنائی شامل کر دی۔
اس مجلس میں نغمہ سرا کوئی اور نہیں بلکہ عرب موسیقی کی ملکہ کا خطاب رکھنے والی معروف مغینہ ام کلثوم تھیں جن کی مدھر آواز کا سارا عرب دیوانہ تھا۔ ان کے گانے سامعین کو سرخوشی میں مبتلا کر دینے والے ہوتے تھے۔ مگر اس دن اس کے برعکس کیفیت کی ایک وجہ عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں ابھرنے والے احساسات تھے، لیکن اسی کے ساتھ ہی ساتھ شاعر کے کلام کا غیر روایتی اور حسب حال ہونا بھی تھا۔
مزید پڑھیں
-
ویٹیکن کے جشن میں اماراتی گلوکارNode ID: 358571
-
سعودی نوجوان موسیقی کا سکول کھولنے کا خواہشمندNode ID: 537096
’حدیث الروح‘ کے نام سے گایا جانے والا یہ کلام برصغیر کے معروف شاعر علامہ اقبال کی نظم شکوہ کا عربی ترجمہ تھا۔ خدا کے حضور مسلمانوں کی زبوں حالی کا یہ شکوہ اقبال نے لکھا تھا۔ مسلم قوم کی مشکلات کے درد بھرے نوحے کو ام کلثوم کی آواز دینے کے محرکات میں شاید جنگ میں ناکامی سے مضطرب دلوں پر الفاظ کا مرہم رکھنا تھا۔
اپنی آواز سے کروڑوں عربوں کے دلوں میں بسنے والی ام کلثوم نے علامہ اقبال کا کلام گا کر اسے عالم عرب سے متعارف کروایا۔ حکومت پاکستان نے اس کے اعتراف میں انہیں 18 نومبر 1967 کو ستارہ امتیاز دینے کا اعلان کیا جسے بعد میں قاہرہ میں پاکستانی سفیر نے ام کلثوم کو پیش کیا۔
اقبال کی معروف نظموں شکوہ اور جواب شکوہ کو مصر کے معروف شاعر صاوی علی الشعلان نے حدیث الروح کے نام سے عربی کا جامہ پہنایا۔ بینائی سے محروم یہ شاعر فارسی میں ایم اے کی ڈگری کے علاوہ اردو پر بھی کمال کی دسترس رکھتے تھے۔ ان سے قبل پاکستان میں مصر کے سابق سفیر عبدالوہاب عزام نے اقبال کے فارسی اور اردو کلام کو عربی میں منتقل کیا تھا۔ مگر ام کلثوم کی گائیکی نے اقبال کو عام عربوں سے متعارف کروایا۔
’مشرق کا ستارہ‘ کہلانے والی ام کلثوم کون تھیں؟