Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زیادہ محنت کم اجرت، ہوم بیسڈ ورکرز استحصال کا شکار

این جی اوز یہ ملبوسات ہزاروں روپے منافع کے ساتھ مارکیٹ میں بیچتی ہیں (فوٹو اے ایف پی)
ہاتھوں میں رنگ برنگی گولیوں کا شاپر تھامے، اد ھیڑ عمر بیوہ بی بی خاتون ایک این جی او کے دفتر میں لائن میں لگی اپنی باری کا انتظار کر رہی تھیں کہ کب وہ اپنی ہفتے بھر کی اجرت حاصل کر کے گھر روانہ ہوں۔ وہ گھرجہاں بہت سی ضرورتیں اور کچھ خواہشوں کی تکمیل کے لیے اس کی محدود کمی کی راہ تکی جا رہی تھی۔
بی بی خاتون ملبوسات پر دیدہ زیب کڑھائی کرنے کی ماہر ہیں اور سوئی دھاگے سے ایسے خوبصورت اوررنگ برنگے پھول بناتی ہیں کہ  دیکھنے والا مسحور ہو جائے۔ وہ ایک قمیض بہ مشکل دو ہفتوں میں مکمل کر کے ایک سے دو ہزارروپے کما پاتی ہیں۔ بہت سے لوگوں کے لیے یہ رقم شاید بہت کم ہو، لیکن خاتون کے لیے یہ رقم کسی انمول خزانے سے کم نہیں اور یہ حقیقت ان کی آنکھوں میں رقصاں خوشی سے خوب عیاں تھی۔
چار بیٹوں کی ماں، بی بی خاتون حالات کے جبر سے مجبور ہو کر عمر کے اس حصے میں بھی کام کرنے پر مجبور ہیں، کیوںکہ ان کے بیٹے محنت مزدوری کر کے بہت مشکل سے اپنے اپنے خاندانوں کا پیٹ پالتے ہیں۔
ضلع کوہستان کے خوبصورت پہاڑی علاقے پتن سے تعلق رکھنے والی خاتون راولپنڈی کے گنجان آبادعلاقے میں سکونت پزیر ہیں۔
اپنے ہاتھوں پر سوئی سے پڑنے والے زخم دکھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’میں بھرائی ٹانکے کی ماہر ہوں اور یہ کام میں نے بچپن میں اپنی ماں سے سیکھا تھا۔ میں ایک مہینے میں چار قمیضیں مکمل کر کے چار سے پانچ ہزار کما لیتی ہوں۔ اب میں اپنی بہوﺅں کے لیے بھی کام لے کر جاتی ہوں اور وہ بھی گھر بیٹھے چار پیسے کما لیتی ہیں۔‘
بی بی خاتون جیسی بہت سی اور عورتیں یا ہوم بیسڈ ورکرز بھی آس پاس کے علاقوں سے اس این جی او کے آفس سے اپنے لیے کام حاصل کرتی ہیں اور گھر سے آڈر پورا کر کے 15 دن بعد اپنی اجرت وصول کرتی ہیں جو کے دو ہزار روپے سے زیادہ نہیں ہوتی۔یہ الگ بات ہے کہ یہی این جی اوز اسی ہاتھ سے بنے کشیدہ کاری کے ملبوسات ہزاروں روپے منافع کے ساتھ مارکیٹ میں بنی بوتیکس کو بیچتی ہیں، کیوںکہ ہاتھ سے بنے کام کی امیر طبقے میں بہت مانگ ہے اور خاص طور پر پاکستان میں موجود غیر ملکی خواتین ان کپڑوں کو بہت پسند کرتی ہیں۔
این جی او کے اسی ہال میں فرش پر بچھی چٹائی پر بیٹھی ثمینہ گل جلدی جلدی سوئی چلاتے ہوئے اپنا ادھورا کام مکمل کرنے کی کوشش کر رہی تھیں تا کہ کام دے کے وہ اپنا معاوضہ لے سکیں۔

بی بی خاتون جیسی بہت سی اور عورتیں این جی او کے آفس سے اپنے لیے کام لیتی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ وہ ہر مہینے پانچ سے چھے ہزار روپے کما لیتی ہیں، وہ اپنے اطراف میں رہنے والی اور بہت سی خواتین کے لیے بھی کام لے جاتی ہیں، ایسی خوایتن جن کی خود این جی او کے دفتر تک رسائی نہیں ہے۔ثمینہ پشاور روڈ راولپنڈی کی رہائشی ہیں اور مانتی ہیں کہ ان کو ملنے والی اجرت بہت کم ہے مگر ان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کے پاس اس کے سوا اور کوئی آپشن نہیں ہے۔
ثمینہ کا کہنا ہے کہ ’میں نے شیڈو ورک اپنی ساس سے سیکھا ہے۔ وہ بھی اسی این جی او کے لیے کام کرتی رہی ہیں اور اب عمررسیدگی کے باعث باریک بینی کا کام نہیں کر سکتیں۔ میں یہ کام اپنے شوہر کی مدد کے لیے کرتی ہوں تاکہ میرے بچے سکول جا سکیں۔‘ہاتھ کے کام سے مزین، بہت سے تیار شدہ ملبوسات ہال کی دیواروں پر ٹنگے ڈیلیوری کے لیے تیار تھے۔ یہ نہایت حسین، جازب نظر اور ماڈرن تھے اور ان پہ لگے پرائس ٹیگز ان عورتوں کی کہانیوں سے پرے ایک الگ ہی کہانی بیان کر رہے تھے۔ ہر کُرتہ چار سے آٹھ ہزار کی قیمت رکھتا تھا۔
یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی بہت اہم ہے کہ ان خواتین کے اصرار پر این جی او کا نام نہیں لکھا جا رہا کیونکہ ان کو خوف تھا کہ وہ اس کام سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔
جب وہاں دفتر میں موجود ایک خاتون افسر سے کم اجرت کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس ادارے سے حاصل ہونے والے منافع سے کئی پسماندہ علاقوں میں سکول اور ہسپتال چلائے جاتے ہیں جہاں کے مکینوں کو صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات بھی مہیا نہیں ہیں۔
ہوم بیسڈ ورکرز اس ملک کی معیشت میں انتہائی اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ہینڈی کرافٹ کے ذریعے اس ملک کے سافٹ امیج کو بھی فروغ دے رہے ہیں، لیکن بدقسمتی سے کسی قومی پالیسی کی عدم موجودگی کی وجہ سے مالی استحصال کا شکار ہو رہے ہیں۔
گھریلو کارکنوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک این جی او، ہوم نیٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں 20 لاکھ کے قریب ہوم بیسڈ ورکرز ہیں جن میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔ یہ زیادہ تر گارمنٹس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔

لیبر اور وویمن ڈویلپمنٹ وزارتوں نے 2001 میں ایک قومی پالیسی بنائی تھی (فوٹو: آکسفیم)

صوبوں کو منتقلی سے پہلے دونوں لیبر اور وویمن ڈویلپمنٹ وزارتوں نے 2001 میں ایک قومی پالیسی بنائی تھی تاہم صوبوں کے پاس اختیارات آنے کے بعد اب ہر صوبے کے پاس پالیسی وضع کرنے کا استحقاق ہے۔
سندھ حکومت نے 2018 میں سندھ ہوم بیسڈ ورکرز ایکٹ منظور کیا تھا جس پرتاحال عملدرآمد نہیں ہو سکا جبکہ باقی صوبوں میں گھریلو کارکنوں کے حقوق کے تحفظ کے قانون پر کام التوا کا شکار ہے۔
ہوم نیٹ کی ایک افسر نے بتایا کہ ’پاکستان میں یہ ورکرز بہت عمدہ کام کر رہے ہیں مگر بدقسمتی سے مارکیٹ تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے مختلف ادارے اور افراد ان کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ان کا ادارہ ایسے افراد اور بالخصوص خواتین کی مارکیٹ تک رسائی میں مدد کرتا ہے اور آن لائن کاروبار شروع کرنے کے لیے تکنیکی معاونت بھی فراہم کرتا ہے۔
’اب تک 50 سے زائد خواتین اپنا آن لائن کاروبار شروع کر چکی ہیں اور 20 سے50  ہزار روپے ہر ماہ گھر بیٹھے کما رہی ہیں۔‘
گھروں میں کام کرنے والوں کے استحصال سے بچاؤ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ ایک قومی پالیسی بنائے جس پر تمام صوبے عملدرآمد کے پابند ہوں۔ اس طبقے کے حقوق کے تحفظ کے لیے ان کی براہ راست منڈیوں تک رسائی کو ممکن بنایا جائے اور ان کو جدید تربیت کے مواقع فراہم کیے جائیں تا کہ کوئی بھی فرد یا ادارہ ان کا استحصال نہ کر سکے اور یہ خواتین اپنی اور اپنے بچوں کی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ زندگی کی کچھ خواہشات بھی پوری کر سکیں۔

شیئر: