اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین کے ریجنل ڈائریکٹر برائے ایشیا پیسیفیک نے کہا ہے کہ ’عالمی یوم خواتین‘ جیسے فیسٹیول منعقد کرنے کا ایک مقصد خواتین کا تحفظ اور مردوں پر ان کو ضروریات زندگی فراہم کرنے کا بوجھ کم کرنا بھی ہے۔
عالمی یوم خواتین کے حوالے سے اردو نیوز کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں محمد نصیری کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ یہ جائزہ لے رہی ہے کہ صنفوں میں عدم مساوات کیسے مردوں اور لڑکوں کو بھی منفی طور پر متاثر کر رہی ہے۔
مزید پڑھیں
-
عورت مارچ: ’قانون کے مطابق کسی کو روکا نہیں جا سکتا‘Node ID: 462671
-
پاکستان میں خواتین کی تحریکیںNode ID: 462966
-
’کہیں بھی عورت کی تذلیل ناقابلِ قبول ہے‘Node ID: 463206
’مردوں پر ضروریات زندگی فراہم کرنے کا یہ مسلسل بوجھ کیسا ہے؟ ان پر کیسے تحفظ دینے کی یہ مسلسل ذمہ داری ہے؟ اور وہ کیسا محسوس کرتے ہیں کہ وہ گھر میں مکمل طور پر تنہا ہیں، خیال رکھنے والے اور ضروریات فراہم کرنے والے تنہا فرد ہیں؟‘
’لہٰذا جب ہم اس پر مشترکہ طور پر کام کرتے ہیں تو ہم محسوس کرتے ہیں کہ بہت سے مردوں اور لڑکوں پر بھی بوجھ کم ہو رہا ہے۔ اور مجموعی طور پر معاشرہ صحت مند اور مزید متوازن ہو رہا ہے اور یہی نقطہ ہے جب ہم خواتین کے عالمی دن اور سولہ روزہ تحریک جیسے عالمی دن مناتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا میں عورتوں کے خلاف تشدد کا معاملہ ابھی بھی اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر بہت اوپر ہے اور اس کا خاتمہ بہت بڑا چیلنج ہے۔
ایک سوال کے جواب میں محمد نصیری نے کہا کہ عالمی سطح پر ’می ٹو‘ مہم کو اب میڈیا میں جگہ ملنا کم ہو گئی ہے۔
’ ’می ٹو‘ کیمپین کو میڈیا میں اس طرح واضح جگہ ملتی نہیں دیکھتا جیسے اس کو اس کے آغاز میں ملتی تھی، لیکن یہ یقیناً ختم نہیں ہوئی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’می ٹو‘ مہم نے دنیا کے بہت سے حصوں میں قانونی فریم ورک اور پالیسیاں بنانے، سیاستدانوں، فیصلہ سازوں اور قانون نافذ کرنے والوں کو اس معاملے کے متعلق زیادہ حساس بنانے اور ان کو اس مسئلے کے حل کا اہم حصہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آن لائن ہراسگی موجودہ دور کی خواتین کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے اور اقوام متحدہ اس کے حل کے لیے متعلقہ حلقوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔
’ہم دیکھ چکے ہیں کہ آن لائن ہراسگی دنیا کے کچھ حصوں میں خواتین کے قتل اور خودکشی کا باعث بنی ہے، لہٰذا اب ہم اپنے شراکتی اداروں کے ساتھ مل کر گائیڈ لائنز بنا رہے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ کام کر رہے ہیں کہ وہ سرچ انجنز اور سوشل میڈیا کے بڑے پلیٹ فارمز کے ساتھ مل کر کیسے شناخت کر سکتے ہیں اور کیسے مزید نگرانی کر سکتے ہیں۔‘
محمد نصیری جو گزشتہ ہفتے اسلام آباد کے دورے پر پاکستان آئے تھے، نے معذوروں کی بحالی کے ایک مرکز میں مقامی خواتین سے ملاقات بھی کی اور اس کے بعد پاکستانی خواتین کی ہمت اور جذبے پر انہیں خراج تحسین پیش کیا۔
’میں نے خود کو ان (پاکستانی) خواتین کے سامنے بہت چھوٹا محسوس کیا۔ یہ نہ صرف اپنی زندگیوں بلکہ اپنی برادریوں کی زندگیوں کو تبدیل کرنے کے لیے بھی بہت زیادہ عزم، استقامت اور فخر کے ساتھ کام کرتی ہیں اور اگر پاکستانی عورتوں کی دنیا ایسی ہے تو میرا ماننا ہے کہ ہمیں اس ملک کی ہر عورت اور لڑکی کا مجسمہ بنانے کی ضرورت ہے۔ ‘
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں