Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مولانا ظفرعلی خان پہلی جرنلسٹس یونین کے قیام کا باعث کیسے بنے؟

مولانا ظفر علی خان علی گڑھ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ریاست حیدرآباد کے دارالترجمہ سے وابستہ تھے۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)
’مولانا ظفر علی خان کو میں نے پہلی بار علی گڑھ میں دیکھا تھا۔ ان کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا۔ مدیر، شاعر، نعت گو، خطیب و باغی، وفاکش اور جفاکش، سیماب اور ہنگامہ پرور۔ کہنے والوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر برصغیر میں کہیں تحریک کی بنیاد ڈالنی ہو تو ظفر علی خان سے بہتر کوئی شخص نہیں ملے گا۔ وہ بلا کی تیزی اور تندہی سے کام کریں گے اور دیکھتے ہی دیکھتے عمارت تیار ہو جائے گی۔‘
’اس وقت انہیں تحریک سے علیحدہ کر دینا چاہیے۔ ورنہ عمارت کو جس تیزی سے بناتے ہیں اسی تیزی سے ڈھانے لگتے ہیں۔‘
معروف بیوروکریٹ اور صاحب طرز مصنف مختار مسعود کا یہ تبصرہ مولانا ظفر علی خان کی متنوع شخصیت اور متلون مزاجی کا بلیغ بیانیہ ہے۔
ان کے زور قلم کے دوست اور دشمن سبھی مداح تھے۔ نظم و نثر پر کامل دسترس رکھنے والے ظفر علی خان کی زندگی معرکہ آرائی میں گزری۔ صحافتی حلقوں سے معاصرانہ چشمک اور مقابلے بازی میں ادیبوں اور صحافیوں کا متحدہ محاذ بھی ان کے مدمقابل ناکام رہتا۔
ظفر علی خان کے قریبی رفقا غلام رسول مہر اور عبد المجید سالک جب زمیندار اخبار سے الگ ہوئے اور اپنا اخبار انقلاب کے نام سے جاری کیا۔
زمیندار اور انقلاب میں لفظی جنگ کا رن پڑا۔ انقلاب کی طرف سے اس کے مدیروں کے علاوہ لاہوری ادیبوں کا مشہور طائفہ ’نیازمندان لاہور‘ بھی ظفر علی خان کے خلاف تیر اندازی میں مصروف تھا۔
جوابی محاذ پر مولانا تن تنہا سینہ سپر تھے۔ اس معرکے کے دوران جب انہوں نے کہا کہ ان کا اکیلا ’تکل‘ انقلاب کی ساری پتنگوں سے لڑے گا، تو دیکھنے والے دیکھ رہے تھے کہ معرکے میں پلڑا اکیلے ظفر علی خان کا بھاری تھا۔

زمیندار اخبار کا اجرا مولانا ظفر علی خان کے والد مولانا سراج الدین نے کسانوں کے لیے زراعت پر معلوماتی مضامین سے کیا تھا۔ (فوٹو:مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ)

انقلاب کے ساتھ لفظی جنگ کا پس منظر اپنے اندر برصغیر کی صحافتی تاریخ کے کچھ دلچسپ پہلو لیے ہوئے ہے۔
سنہ 1927 میں غلام رسول مہر اور عبد المجید سالک کی زمیندار اخبار سے رخصتی طویل صحافتی ہڑتال کا نتیجہ تھی۔ دلچسپ اور تاریخی حقیقت ہے کہ اسی دوران برصغیر کی پہلی صحافتی تنظیم کی داغ بیل بھی پڑی۔ جس کی تفصیل نامورصحافی عبدالمجید سالک نے اپنی آپ بیتی 'سرگزشت' میں بیان کی ہے۔
ان کے مطابق زمیندار کے مالی حالات روز بروز خراب ہو رہے تھے۔ عملے کو قسطوں میں تنخواہیں دی جاتی تھی۔ مارچ کے مہینے میں رمضان آ گیا۔ اخباری ملازمین نے تنخواہیں طلب کی تو مولانا ظفر علی خان اپنے آبائی گاؤں کرم آباد چلے گئے اور ان کے بیٹے اخترعلی خان بمبئی روانہ ہوگئے۔
زمیندار کے مالک کو نوٹس دیا گیا کہ اگر 20 مارچ تک ادائیگی نہ ہوئی تو اگلے روز سے کام ترک کر دیا جائے گا۔
مولانا ظفر علی خان نے ہڑتال کرنے والوں سے نمٹنے کے لیے مہر اور سالک کو اخبار کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کر دیا۔ جس پر انہوں نے انقلاب کے نام سے اپنا اخبار نکالنا شروع کر دیا۔
مگر زمیندار سے وابستہ ایک اور قلم کار مرتضی احمد خان میکش کی قیادت میں عملے نے اخبار کی تیاری کا کام روک کر ہڑتال جاری رکھی۔
اس دور میں زمیندار سے وابستہ رہنے والے ایک اور صحافی اشرف عطا نے اپنی کتاب 'کچھ شکستہ داستانیں کچھ پریشان تذکرے' میں مرتضی احمد خان میکش، چراغ حسن حسرت، باری علیگ اور حاجی لق لق کی زیر قیادت برصغیر کی پہلی یونین آف جرنلسٹس کی طرف سے زمیندار اخبار کے گیٹ کے سامنے ہڑتال اور مولانا سے مناقشہ اور مذاکرات کی تفصیل قلمبند کی ہے۔
ان صحافیوں کو جب زمیندار کے سامنے سڑک پر ہڑتالی کیمپ لگائے ایک ہفتہ ہو گیا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ مولانا ظفر علی خان کی آمد پر سب لوگ اخبار کے دفتر کی سیڑھیوں پر لیٹ جائیں گے۔
مولانا کی آمد پر سراپا احتجاج صحافیوں نے انہیں دفتر نہ جانے دیا تو وہ ان کی شکایت لے کر سیدھے علامہ اقبال کے ہاں چلے گئے۔ اقبال نے مداخلت سے معذوری ظاہر کی اور فرمایا کہ بہتر ہے کہ آپ ان کی تنخواہیں ادا کر دیں۔

ظفر علی خان کے قلم کی آتش نوائی کے سبب انگریز حکومت زمیندار سے بار بار ضمانت طلب کرتی۔ (فوٹو: مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ)

یہ معاملہ بعد ازاں ہڑتال کرنے والوں کی گرفتاری اور زمیندار سے علیحدگی کا باعث بنا۔ اسی کے بطن سے ایک اور اردو اخبار ’احسان‘ نے جنم لیا۔ مرتضی احمد خان میکش کی ادارت میں چھپنے والے اس روزنامے کو علامہ اقبال کی سرپرستی حاصل تھی۔
زمیندار اخبار کا اجرا ظفر علی خان کے والد مولانا سراج الدین نے کسانوں کے لیے زراعت پر معلوماتی مضامین کے لیے کیا تھا۔
ان دنوں ظفر علی خان علی گڑھ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ریاست حیدرآباد کے دارالترجمہ سے وابستہ تھے۔
انہوں نے نوبیل انعام یافتہ ادیب اور روزنامہ سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور کے ایڈیٹر رڈیارڈ کپلنگ کی تصنیف ’دی جنگل بک‘ کا ترجمہ ’جنگل میں منگل‘ کے نام سے کیا تھا۔
ظفر علی خان اور عبدالحلیم شرر کو حیدرآباد سے بے دخل کر دیا گیا۔ وہ زمیندار کو وزیرآباد سے لاہور لے آئے۔
پہلی جنگ عظیم کے دوران جنگ بلقان اور طرابلس کی لڑائی کی خبروں اور زوردار تجزیوں نے زمیندار کی عوامی مقبولیت بڑھا دی۔ اس سے قبل منشی محبوب عالم کا ’پیسہ‘ اخبار مقبول عام گنا جاتا تھا۔ زمیندار کے عروج نے اسے گہنہ دیا۔
ظفر علی خان کے قلم کی آتش نوائی کے سبب انگریز حکومت زمیندار سے بار بار ضمانت طلب کرتی۔
ہندوستان کے مسلمان چندہ کر کے مطلوبہ رقم مہیا کر دیتے۔ یہاں تک کہ زمیندار کے حریفوں نے مشہور کر رکھا تھا کہ جب بھی اخبار کو مالی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے تو ظفر علی خان کوئی اشتعال انگیز مضمون لکھ کر جان بوجھ کر سرکاری عتاب کی زد میں آ جاتے ہیں ۔
صحافت کے ساتھ ظفر علی خان کا دوسرا وصف سیاسی موضوعات سے مزین شاعری تھی۔
انہوں نے اردو شاعری کو مشاعرے سے اکھاڑے میں لا کھڑا کیا۔ ہندوستان میں رونما ہونے والے سیاسی واقعات پر ان کا منظوم تبصرہ اکثر ہجو اور طنز سے عبارت ہوتا۔

مولانا ظفر علی خان کو آخری عمر میں زمانے کی ناقدری کا شکوہ تھا۔ (فوٹو: مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ)

دوستی ہو یا دشمنی ظفر علی خان کا قلم دونوں کا حق ادا کرتا تھا۔ احراریوں سے خوش ہوئے تو ان کے لیڈر تاج الدین کے سر پر دین و دنیا کا تاج رکھنے پر آمادہ ہو گئے۔ جب خفا ہوئے تو ان کی مذمت میں تنقیدی نظموں کے ڈھیر لگا دیے۔
کانگریس کے نظریہ متحدہ قومیت کے قائل ہوئے تو اپنا زور قلم اس کی وکالت میں صرف کر ڈالا۔ مگر جب کانگریس سے بیزار ہو گئے تو اس کے لیڈروں کے تمسخر میں نظموں کی نظمیں کہہ ڈالیں۔
تقسیم ہند سے قبل لاہور میں صحافت سے وابستہ رہنے والے گوپال متل نے اپنی آپ بیتی ’لاہور کا جو ذکر کیا‘ میں ظفر علی خان اور امتیاز علی تاج کا ایک واقعہ نقل کیا ہے۔
ان دنوں اردو کے مشہور ادیب امتیاز علی تاج لاہور میں ایک فلمی ادارہ بنانا چاہتے تھے۔ مولانا کی طبیعت نے جوش مارا اور وہ فلمی ادارے کی مخالفت میں زور قلم دکھانے لگے، جس کا اظہار اس شعر میں کیا۔
نئی تہذیب نے انڈے دیے لاہور میں آ کر
اور اس کے نقرئی بچوں کی چوں چوں بن گئی ٹاکی
امتیاز علی تاج کو تشویش ہوئی کے یہ مخالفت انہیں کاروبار میں نقصان دے سکتی ہے۔ انہوں نے عبدالمجید سالک اور پنڈت ہری چند اختر کو ساتھ لیا اور مولانا کی بارگاہ میں انہیں قائل کرنے جا پہنچے۔ مولانا کا ایک ہی جواب تھا کہ وہ مسلمانوں کو لہو و لعب میں مبتلا کرنے کے خلاف ہیں۔ وفد کے ایک ممبر نے دوران گفتگو کہا کہ مولانا فلم تو آپ بھی دیکھتے ہیں۔ انہوں نے جوش میں جواب دیا کہ ’فلمیں دیکھنا اور بات ہے بنانا دوسری۔‘
سنہ 1928 میں سائمن کمیشن کے سربراہ سر جان سائمن کی لاہور آمد ایک تاریخی واقعہ تھا جس نے بھگت سنگھ کی تحریک سمیت بہت سارے واقعات کو جنم دیا۔
ان کی آمد والے دن لاہور میں دو طرح کے جلوس نکل رہے تھے۔ ریلوے سٹیشن کے اندر مسلم لیگ کے شفیع گروپ کے رہنما سر محمد شفیع سمیت کچھ ہندو اور سکھ رہنما سائمن کمیشن کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔
ریلوے سٹیشن کے باہر ڈاکٹر ستیہ پال، مولانا ظفر علی خان اور لالا لاجپت رائے کی قیادت میں مظاہرین ’گو بیک سائمن‘ کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ ان پر پولیس کے لاٹھی چارج سے لالا لاجپت رائے کی موت واقع ہو گئی۔ جس کا بدلہ لینے کے لیے ایس پی سانڈرس کو کچھ انقلابیوں نے گولی مار دی۔

دوستی ہو یا دشمنی ظفر علی خان کا قلم دونوں کا حق ادا کرتا تھا۔ (فوٹو: مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ)

بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کی انقلابی جدوجہد ان واقعات کے تسلسل میں آگے بڑھی۔
صحافت، سیاست اور خطابت کے اکھاڑے میں رنگ جمانے والے ظفر علی خان کا انتقال 27 نومبر 1956 کو ہوا۔
چار دہائیوں تک ادب و صحافت اور سیاست و معاشرت میں نمایاں رہنے والے ظفر علی خان کو آخری عمر میں زمانے کی ناقدری کا شکوہ تھا۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ان کی آخری تقریر کے الفاظ اس اندرونی احساس کو بیان کرتے ہیں۔
’اس میں شک نہیں کہ بوڑھے عصر حاضر کے معمار ہیں۔ لیکن جس طرح عمارت مکمل ہو جائے تو معمار کو نکال دیا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر عصر حاضر پکارنے لگے کہ اب تماری کوئی ضرورت نہیں تو ہم کوئی جواب نہ دے سکیں گے۔ دنیا چڑھتے سورج کی پرستش کرتی ہے۔ ڈوبتے آفتاب کو کون پوچھتا ہے۔ ہم ڈوبتے ہوئے ستارے کی طرح دنیا پر نظر ڈال رہے ہیں پھر سورج کے مقابلے میں ہمیں کب جگہ ملے گی۔‘

شیئر: