’مولانا ظفر علی خان کو میں نے پہلی بار علی گڑھ میں دیکھا تھا۔ ان کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا۔ مدیر، شاعر، نعت گو، خطیب و باغی، وفاکش اور جفاکش، سیماب اور ہنگامہ پرور۔ کہنے والوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر برصغیر میں کہیں تحریک کی بنیاد ڈالنی ہو تو ظفر علی خان سے بہتر کوئی شخص نہیں ملے گا۔ وہ بلا کی تیزی اور تندہی سے کام کریں گے اور دیکھتے ہی دیکھتے عمارت تیار ہو جائے گی۔‘
’اس وقت انہیں تحریک سے علیحدہ کر دینا چاہیے۔ ورنہ عمارت کو جس تیزی سے بناتے ہیں اسی تیزی سے ڈھانے لگتے ہیں۔‘
معروف بیوروکریٹ اور صاحب طرز مصنف مختار مسعود کا یہ تبصرہ مولانا ظفر علی خان کی متنوع شخصیت اور متلون مزاجی کا بلیغ بیانیہ ہے۔
مزید پڑھیں
-
کاندھلہ کے گنجے اور مولانا ظفر علی خانNode ID: 469696
-
اردو افسانے کی سلطنت کے معمار غلام عباس کا لاہور سے عشقNode ID: 619121
-
مصری گلوکارہ اُم کلثوم کو پاکستانی ایوارڈ کیوں دیا گیا؟Node ID: 619436