آپ کی دیوار پر لٹکی ہوئی گھڑی چلتے ہوئے رک جاتی ہے اور آپ اس میں سے بیٹری سیل نکال کر پھینک دیتے ہیں کہ وہ ختم ہوگیا ہے یعنی اس سیل میں موجود بجلی یا چارجنگ ختم ہو چکی ہے۔
حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ اس میں چارجنگ موجود ہوتی ہے لیکن وہ اتنی کم ہوتی ہے کہ ایک گھڑی کو چلانے کے ناکافی ہو جاتی ہے اور اس کو جانچنے اور ماپنے کی صلاحیت کسی کے پاس موجود نہیں ہوتی۔
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے جدید تحقیقی مرکز سینٹر فار ایڈوانسڈ الیکٹرونکس اینڈ فوٹو وولٹائیک انجینئیرنگ نے الیکٹریکل سیل میں کرنٹ کی کم ترین مقدار کو ماپنے اور سولر پینل کی سائنسی بنیادوں پر حقیقی صلاحیت جانچنے کی ٹیکنالوجی تیار کر لی ہے۔
مزید پڑھیں
-
سعودی عرب کی طرف سے 3 بلین ڈالرز پاکستان کو موصول: شوکت ترینNode ID: 624176
او آئی سی چارٹر کے تحت کام کرنے والی پاکستان کی بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد اپنے قیام کے 42 سال مکمل کر چکی ہے۔
اس دوران یونیورسٹی نے جہاں شرعی علوم میں اپنا مقام بنایا ہے وہیں سائنسی تحقیق میں پاکستان کے جدید ترین سینٹر کا قیام عمل میں لائی ہے جو نہ صرف یونیورسٹی کے اساتذہ بلکہ سرکاری اور نجی اداروں کے لیے جدید تحقیق کے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔
2009 میں ایک ڈیوائس ڈیزائن سوٹ سے اپنے تحقیقی مشن کا آغاز کرنے والے سینٹر فار ایڈوانسڈ الیکٹرونکس اینڈ فوٹو وولٹائیک انجینئیرنگ نے کسی بھی الیکٹریکل سیل میں موجود کرنٹ کی کم ترین مقدار کو ماپنے کی صلاحیت حاصل کرنے کے علاوہ کسی بھی سولر پینل کی سائنسی بنیادوں پر حقیقی صلاحیت جانچنے کی ٹیکنالوجی تیار کر لی ہے۔
سینٹر فار ایڈوانسڈ الیکٹرونکس اینڈ فوٹو وولٹائیک انجینئیرنگ میں چھ جدید ترین لیبارٹریز کام کر رہی ہیں۔
ان کے تحت مزید 20 لیبارٹریز اپنے اپنے حصے کا کام کرتی ہیں جن میں ڈیوائس ڈیزائن سے لے کر ٹیسٹنگ اور ایویلویشن تک تمام تر جدید سہولیات دستیاب ہیں۔
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ان پانچ عالمی یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے جو او آئی سی کے چارٹر کے تحت کام کر رہی ہے جو 1980 میں قائم ہوئی۔
یونیورسٹی کی بنیاد فیصل مسجد کے تحت رکھی گئی جہاں اب بھی یونیورسٹی کا بہت بڑا اولڈ کیمپس موجود ہے۔
![](/sites/default/files/pictures/December/36516/2021/screen_shot_2021-12-04_at_5.21.22_pm.png)
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کو پاکستان اور سعودی عرب کی دوستی کی بہترین مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
یونیورسٹی کا انتطام چلانے کے لیے سعودی حکومت کی جانب سے خصوصی گرانٹ دی جاتی ہے جبکہ یونیورسٹی کی صدارت کا عہدہ سعودی پروفیسر کو دیا جاتا ہے۔ گذشتہ دس سال سے سعودی پروفیسر بطور صدر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ سعودی عرب یونیورسٹی کو فیکلٹی ممبران بھی فراہم کرتا ہے۔
اسلامی ترقیاتی بینک نے بین الاقوامی یونیورسٹی کو جدید ترین سائنسی مرکز کے لیے سب سے پہلے 2009 میں ڈیوائس ڈیزائنگ سوٹ کے لیے اور 2013 میں ایڈوانسڈ الیکٹرونک لیبارٹری کے لیے گرانٹ فراہم کی۔
2014 میں حکومت نے وژن 2025 کے تحت اس کو جدید ترین سائنسی مرکز بنانے کا فیصلہ کیا تو اسلامی ترقیاتی بینک نے 2016 میں فوٹو وولٹائیک انجینئیرنگ بھی گرانٹ فراہم کی۔
حکومت پاکستان نے پی ایس ڈی پی کے ذریعے بھی اس مرکز پر پیسے لگائے اور اب یہ مرکز سائنس کے متعدد شعبوں میں ملک کا جدید ترین ادارہ بن چکا ہے۔
سینٹر فار ایڈوانسڈ الیکٹرونکس اینڈ فوٹو وولٹائیک انجینئیرنگ میں موجود سہولیات کے حوالے سے سینٹر کے ریسرچ ایسوسی ایٹ محمد علی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہماری لیب میں ہم کثیر الجہتی سینسرز پر کام کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے خاص طور پر ایکڈیمیا اور دفاع کے لوگ ہمارے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔‘
![](/sites/default/files/pictures/December/36516/2021/whatsapp_image_2021-12-04_at_9.12.32_pm.jpeg)
انہوں نے بتایا کہ ’اس میں سب سے اہم چیز دیکھنے کی ہوتی ہے یعنی مائیکروسکوپک سکینگ کرنا۔ الیکٹرون مائیکرو سکوپ سے ہم وہ چیزیں دیکھتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم چیک کرتے ہیں کہ کوئی چیز کیسی بنی ہے کیونکہ عام آنکھ نینو سکیل پر جا کر وہ نقص یا خوبی نہیں دیکھ سکتی۔‘
ریسرچ ایسوسی ایٹ محمد علی کا کہنا ہے کہ ’ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ اس کے اجزا کی تفصیل کیا ہے۔ اس میں آکسیجن کتنا ہے، اس کے اندر ہائیڈروجن کتنا ہے۔ اس کے دیگر علاوہ بھی کسی چیز میں موجود عناصر کا پتہ چلا سکتے ہیں۔‘‘
انھوں نے کہا کہ ’ہمارے پاس پاکستان کا جدید ترین کلین روم ہے جس میں نینو سکیل کی آلودگی بھی موجود نہیں۔ پاکستان میں جن کلین رومز میں بنتے ہیں ہمارا کلین روم جدیدیت کے اعتبار سے ان تمام لیبارٹریوں سے اچھا ہے۔‘
ریسرچ ایسوسی ایٹ محمد علی کے مطابق ’اس سینٹر میں کام کرتے ہوئے ہم نے جو قابل فخر کام کیا ہے وہ کسی بھی شعبے میں ہماری حساسیت ہے۔ ہم نے کرنٹ کا انتہائی معمولی ترین بہاؤ چیک کرنے کی صلاحیت بھی حاصل کی ہے۔‘
ان کے مطابق ’فوٹو وولٹائیک انجینئرنگ کے تحت خود سیمولیٹر ایجاد کیے جن کے انٹیلیکچوئل پراپرٹی رائٹس بنا رہے ہیں۔ اگر یہ چیز باہر سے منگوائیں تو لاکھوں روپے میں ملتی ہے۔‘
سیمولیٹر کے حوالے سے محمد علی نے بتایا کہ یہ سیمولیٹر کسی بھی سولر پینل کی حقیقی طاقت جانچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ’پاکستان میں اس وقت تجارتی بنیادوں پر کوئی بھی ایسی ڈیوائس موجود نہیں جو سائنسی طور پر کسی پینل کی خصوصیات بتا سکے۔ جلد ہی قانونی لوازمات پورے کرکے اسے پبلک کر دیا جائے گا۔‘
![](/sites/default/files/pictures/December/36516/2021/whatsapp_image_2021-12-04_at_9.12.33_pm.jpeg)