سوئٹزرلینڈ کے شہر زیورک قائم ادارے میں بنائے گئے پلانٹ میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی کو براہ راست ہوا سے حاصل کیا جاتا ہے اور پھر انہیں سورج کی توانائی کی مدد سے الگ کیا جاتا ہے۔
اس عمل سے ہائیڈروجن اور کاربن مونوآکسائیڈ کا مکسچر سین گیس کی شکل میں حاصل ہوتا ہے، جسے کروسین، میتھانول یا دیگر ہائیڈروکاربنز میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ جس کو جہاز اُڑانے کے لیے بطو ایندھن استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس تمام عمل کے تجزیے سے پتہ چلا ہے کہ اگر اس پلانٹ سے حاصل کیے گئے ایندھن کو صنعتی سطح پر استعمال کیا جائے تو اس کی قیمت 1.2 سے دو یورو فی لیٹر ہوگی۔
صحرائی علاقوں میں تیز دھوپ پڑتی ہے اس لیے ان کو ایندھن کے پیداواری مقاصد کے لیے موزوں مقامات قرار دیا گیا ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانسڈ سسٹین ایبیلیٹی سٹڈیز کے محقق جوائن للیسٹیم کہتے ہیں کہ اس ٹیکنالوجی میں جیٹ فیول کی عالمی طلب پوری کرنے کی صلاحیت ہے اور ایسا کرنے کے لیے پوری دنیا کے ایک فیصد سے بھی کم بنجر زمین کو استعمال کرنا پڑے گا۔
ان کے مطابق ’سرمایہ کاری کے لیے ابتدائی طور پر بہت بڑی رقم درکار ہوگی۔ اس لیے مارکیٹ میں جگہ بنانے کے لیے سیاسی سپورٹ کی ضرورت ہوگی۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یورپی یونین کا موجودہ نظام ایندھن کے مارکیٹ میں جگہ بنانے کے لیے ناکافی ہے۔ انہوں نے یہ تجویز بھی دی کہ یہ ایندھن حاصل کرنے کے لیے یورپی ٹیکنالوجی کا کوٹہ استعمال کیا جائے، اس سے ایئرلائنز اپنے جہازوں کے لیے درکار فیولز کا کچھ حصہ اس ٹیکنالوجی سے حاصل کر سکیں گی۔