Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مدثر نارو کیس: ’کیوں نہ چیف ایگزیکٹیوز کے خلاف آرٹیکل چھ کی کارروائی کریں‘

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جبری گمشدگیوں کا کمیشن آئین کے خلاف بنا ہے۔ (فوٹو: فیس بک/فائنڈ نارو الائیو)
اسلام آباد ہائیکورٹ نے صحافی و بلاگر مدثر نارو کے بازیابی کیس میں اٹارنی جنرل اور ایمان مزاری سمیت دیگر وکلا سے اس نکتے پر معاونت طلب کرلی ہے کہ کیوں نہ لاپتا افراد کی ذمہ داری چیف ایگزیکٹیوز پر عائد کر کے ان کے خلاف آرٹیکل چھ کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ دیا جائے۔
پیر کو ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’جبری گمشدگیوں کا کمیشن آئین کے خلاف بنا ہے۔ جبری گمشدگیاں آئین سے انحراف ہے، دہشت گرد کو بھی ماورائے عدالت نہیں مار سکتے۔‘
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مدثر نارو بازیابی کیس سماعت کی تو اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ ’ایسا نہیں کہ لاپتا افراد کا معاملہ موجودہ حکومت کے دور میں شروع ہوا، یہ معاملہ موجودہ حکومت کو وراثت میں ملا ہے۔‘
’وزیراعظم نے خصوصی ہدایات جاری کی ہیں۔ حکومت اس معاملے کو بہت سنجیدہ لے رہی ہے۔ اس معاملے کا ایک بیک گراؤنڈ ہے کہ اسی ملک میں خودکش دھماکے ہوتے تھے، بہت سارے کیسز ہیں جن میں سینکڑوں پاکستانیوں نے جہاد کے نام پر بارڈر کراس کیا اور افغانستان گئے۔‘
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ ’المیہ یہ ہے کہ ہم نے جغرافیائی حالات اور قومی سلامتی کا معاملہ بھی دیکھنا ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا ’عدالت کا کام نہیں ہے کہ لوگوں کو ڈھونڈے اور نہ ہی ڈھونڈ سکتی ہے۔‘
 انہوں نے کہا ’وزیر انسانی حقوق نے کہا کہ قانون بنا رہے ہیں، قانون کی تو ضرورت ہی نہیں۔ عدالت کہہ سکتی ہے کہ شہری جس دور میں لاپتا ہوئے اس وقت کے چیف ایگزیکٹیو کےخلاف آرٹیکل چھ کی کارروائی کریں۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا ’آرٹیکل چھ کے جرم میں جسے سزا ہوئی ہم تو اس سزا پر عملدرآمد نہیں کر پائے۔ چیف جسٹس نے کہا مسئلہ یہ ہے کہ اس معاملے پر کسی کا احتساب نہیں ہو رہا، ہر کوئی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال دیتا ہے۔ ایک ہال آف شیم بنا کر تمام چیف ایگزیکٹیوز کی تصاویر وہاں لگا دیں۔‘
انہوں نے مزید کہا ’صرف چیف ایگزیکٹوز کی تصاویر کیوں لگائی جائیں؟ کچھ بیماریوں کا علاج عدالتی فیصلوں سے نہیں، عوام کے پاس ہوتا ہے کہ وہ لاکھوں میں تعداد سڑکوں پر آ جائیں۔‘

مدثر نارو 2018 سے لاپتا ہیں۔ (فوٹو: فیس بک)

اس پر چیف جسٹس نے کہا ’عدالتی فیصلوں سے بھی علاج ہوتا ہے اگر ذمہ داروں کا تعین کر لیا جائے۔ عدالت توقع کر رہی تھی کہ وفاقی کابینہ اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرے گی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ میڈیا آزاد ہے یا نہیں؟ ورنہ مسنگ پرسنز کی تصاویر صفحہ اوّل پر ہوں۔ یا تو چیف ایگزیکٹو ذمہ داری لیں یا پھر ان کو ذمہ دار ٹھہرائیں جو ان کے تابع ہیں۔ جب ریاست خود جرم میں شامل ہو تو اس سے زیادہ تکلیف دہ بات ہو ہی نہیں سکتی۔‘
’یہ ایک ٹیسٹ کیس ہے کہ ریاست کا ردعمل کیا ہوتا ہے، ردعمل واضح اور نظر آنا چاہیے کہ لوگوں کو لاپتا کرنا ریاستی پالیسی نہیں۔‘ کیس کی مزید سماعت 18 جنوری تک ملتوی کردی گئی۔
خیال رہے کہ مدثر نارو کو مبینہ طور پر اُس وقت جبری طور پر لاپتا کیا گیا جب وہ 20 اگست سنہ 2018 کو اپنے اہل خانہ کے ہمراہ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے ناران گئے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ ان کی اہلیہ اور چھ ماہ کا بیٹا بھی تھا۔
اس قبل نو دسمبر کو عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم اپنے زیر کنٹرول ایجنسیوں کو مدثر نارو کو عدالت میں پیش کرنے یا ان ان کے ٹھکانے کا پتا لگانے کی ہدایت کریں۔ اس کے بعد مدثر نارو کے خاندان کی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات بھی کرائی گئی تھی جس میں وزیراعظم نے انہیں یقین دلایا تھا کہ وہ مدثر نارو کی گمشدگی کے بارے میں مکمل رپورٹ طلب کریں گے۔ 

شیئر: