پاکستان میں غیر معیاری اور جعلی ادویات فروخت ہوتی ہیں: رپورٹ
پاکستان میں غیر معیاری اور جعلی ادویات فروخت ہوتی ہیں: رپورٹ
منگل 28 دسمبر 2021 19:47
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
تجویز کیا گیا ہے کہ پاکستان میں ادویات کی ٹیسٹنگ بڑھائی جائے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں 2012 میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ) کے قیام کے باجود ملک میں ادویات کے معیار اور ان کی پیداوار میں خاطر خواہ بہتری نہیں آسکی اور گذشتہ چند برسوں میں ہزاروں کی تعداد میں جعلی ادویات مارکیٹ میں پائی گئی ہیں جن کی وجہ سے اب تک قیمتی جانیں ضائع ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔
اردو نیوز کے پاس دستیاب ایک سرکاری تھنک ٹینک کی نئی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق سال 2015 سے اب تک پاکستانی مارکیٹ میں 4 ہزار 800 سے زائد قسم کی ادویات غیر معیاری پائی گئی ہیں، جبکہ 454 ادویات جعلی نکلی ہیں۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) کی تحقیق کے مطابق تقریباً 222 غلط برانڈ کی ادویات مارکیٹ میں پائی گئی ہیں، جبکہ 1710 ادویات کی وارنٹی غلط دی گئی ہے۔ اس طرح تحقیق کے مطابق گذشتہ سال 34 ادویات مارکیٹ سے واپس اٹھائی گئی جبکہ رواں برس میں ایسی ادویات کی تعداد چار تھی۔
پائیڈ کے وائس چانسلر ڈاکٹر ندیم الحق نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ دنیا بھر میں حکومتی اداروں کی مانیٹرنگ اور جائزے کا کام تحقیق کا حصہ ہوتا ہے اس لیے پائیڈ نے بھی ڈریپ اور دیگر حکومتی اداروں کے کام کا جائزہ لینے کے لیے ایک سیل قائم کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں ریگولیٹری ادارے نظام بنانے کے بجائے مارکیٹ کو براہ راست کنٹرول کرنا شروع کر دیتے ہیں جس سے متعلقہ شعبے میں پھلنے پھولنے کا رجحان پروان نہیں چڑھتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈریپ کے قیام کے مقاصد واضح نہیں ہیں۔ کیا اس کے قیام کا مقصد ادویات کی قیمتوں کو کنٹرول کرنا ہے یا ملک میں زیادہ اور اچھی ادویات کی فراہمی یقینی بنانا ہے۔ تحقیق کے مطابق ڈریپ کے کام کی رفتار بہت سست ہے۔
پاکستان میں ادویات کی مقامی پیداوار کیوں کم ہے؟
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ڈریپ کی جانب سے ابھی تک ادویات کی مقامی تیاری کے عمل کو آسان بنانے کے حوالے سے اقدامات ناکافی ہیں جس کے باعث مقامی سطح پر بین الاقوامی ادویات کی تیاری کا رجحان زیادہ پنپ نہیں سکا ہے۔
انڈیا میں ہر سال 11 ارب ڈالر کی غیر ملکی ادویات مقامی سطح پر کنٹریکٹ مینوفیکچرنگ کے ذریعے بنائی جاتی ہیں، جبکہ پاکستان میں صرف 50 لاکھ ڈالر کی کنٹریکٹ مینوفیکچرنگ ہوتی ہے۔ گذشتہ 20 برسوں کے دوران پاکستان میں ادویات کے شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری 28 کروڑ ڈالر تک ہی پہنچ سکی ہے۔
پائیڈ کے ریسرچ فیلو شاہد محمود نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ڈریپ کے قیام سے کچھ بہتری ضروری آئی ہے، تاہم ابھی تک پاکستان کی ادویات کی نگرانی کرنے والے ادارے نے پاکستان میں مقامی معیاری ادویات کی تیاری کا ماحول قائم کرنے کے حوالے سے خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ادویات کی تیاری کا عمل آسان نہیں ہے، بلکہ کاروبار کرنے والے افراد کے لیے یہ شعبہ خاصا پیچیدہ اور مشکل ہے اور دوا سازی کا یونٹ قائم کرنا اور اس کی منظوری کا عمل برسوں پر محیط ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ادویات کے معیار کو جانچنے کی اب تک صرف پانچ لیبارٹریز قائم ہو سکی ہیں مگر وہ بھی امریکی ادارے ایف ڈی اے کے معیار کی نہیں ہیں جس کے باعث پاکستانی ادویات کو اچھی مارکیٹ میں برآمد نہیں کیا جا سکتا اور صرف افغانستان اور چند دیگر ممالک کو ہی یہ ادویات برآمد کی جا رہی ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ادویات کی قیمتوں پر سرکاری کنٹرول کے باعث جان بچانے والی ادویات کی قلت پیدا ہو جاتی ہے اور بلیک مارکیٹ میں وہی ادویات ہوشربا قیمتوں پر بیچی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی مینوفیکچرر معیاری ادویات بنانے سے قاصر رہتے ہیں۔
تحقیقی پیپر میں تجویز کیا گیا ہے کہ پاکستان میں ادویات کی ٹیسٹنگ بڑھائی جائے تاکہ صارفین کے لیے ادویات کے بہتر معیار کو یقینی بنائی جاسکے۔