Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شہباز شریف اہم بجٹ اجلاسوں سے کیوں غائب رہتے ہیں؟

جون 2021 کے اجلاس سے اپوزیشن کے 22 ارکان غائب رہے جن میں اکثریت نواز لیگ کی تھی اور اس اہم ترین اجلاس میں شرکت نہ کرنے والوں میں شہباز شریف بھی شامل تھے۔
پاکستان کی حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کے مطالبے پر جمعرات کو پیش کیے گئے منی بجٹ کی اپوزیشن نے پرزور زبانی مخالفت تو کی مگر قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف ایک بار پھر اجلاس سے غائب رہے۔
یہ پہلی بار نہیں کہ کوئی اہم بجٹ پیش ہوا ہو اور شہباز شریف اس میں حاضر نہ پائے جائیں۔ اگست 2018 میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد اس حکومت نے منی بجٹ سمیت چار بجٹ اجلاس بلائے ہیں۔
حیرت انگیز طور پر اپوزیشن لیڈر تین بار بجٹ پیش ہونے یا پھر منظور ہونے کے دن اسمبلی سے غائب پائے گئے۔
گو کہ جمعرات کے اجلاس میں شہباز شریف کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف زرداری اور بلاول بھٹو بھی غائب تھے مگر شہباز شریف اس سال جون میں سالانہ بجٹ اجلاس میں بھی موجود نہیں تھے۔
اس حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ اس دفعہ شہباز شریف کی بجٹ اجلاس سے عدم حاضری کی واضح وجہ یہ تھی کہ سب چاہتے ہیں کہ منی بجٹ پاس ہو جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ شاید شہباز شریف چاہتے تھے کہ ان کی حاضری سے بجٹ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو کیونکہ اس بجٹ کی منظوری ریاست کے مفاد میں ہے۔

جون 2021 کا بجٹ

اس سال 29 جون کو سالانہ بجٹ کی منظوری کے وقت شہباز شریف کی عدم موجودگی نے  پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان لفظی جنگ بھی چھیڑ دی تھی۔
 بجٹ بحث کے دوران ارکان کی گنتی کی گئی تو حکومت کے 172 اور اپوزیشن کے 138 ارکان موجود تھے جب کہ قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کے مطابق اپوزیشن کے کم سے کم 160 ارکان موجود ہونے چاہیے تھے۔

وفاقی حکومت نے پہلا بجٹ 11 جون 2019 کو پیش کیا تھا۔ اس اجلاس میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف شریک تھے۔ (فوٹو: ریڈیو پاکستان)

اپوزیشن کے 22 کے قریب غائب ارکان میں اکثریت نواز لیگ کی تھی اور اس اہم ترین اجلاس میں شرکت نہ کرنے والوں میں شہباز شریف بھی شامل تھے۔
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی کہا تھا ’وہ بجٹ کی منظوری کے وقت اپوزیشن ارکان کی تعداد پوری نہ ہونے کا معاملہ شہباز شریف کے سامنے اٹھائیں گے۔‘
یاد رہے کہ 17 جون کو قومی اسمبلی میں بجٹ سیشن سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر شہبازشریف نے دعویٰ کیا تھا کہ ’وہ بجٹ منظور نہیں ہونے دیں گے اور حکومت کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوں گے۔‘
تاہم 29 جون کو اجلاس میں شہباز شریف کی عدم موجودگی کو بہت واضح طور پر محسوس کیا گیا۔
ان کی عدم موجودگی پر تنقید کے بعد مسلم لیگ نواز کی ترجمان مریم اورنگزیب نے وضاحتی ٹویٹ کیا جس میں انہوں نے کہا کہ ’شہباز شریف اپنے تایا زاد بھائی اور برادر نسبتی میاں طارق شفیع کی وفات کے باعث جنازے اور لاہور میں رسم قل کی وجہ سے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کر سکے۔ ان کی عدم موجودگی پر پریشان ہونے والے اب ان سے تعزیت کر سکتے ہیں۔‘
مریم اورنگزیب نے مزید کہا حقیقت یہ ہے کہ اپوزیشن کے تمام ارکان کے موجود ہونے کے باوجود بجٹ منظور ہونے سے نہیں روکا جا سکتا تھا۔ بجٹ 172 ووٹ سے منظورہوا، اختر مینگل اور جماعت اسلامی کی عدم موجودگی کے بعد اپوزیشن کے کل ووٹ 161 بنتے تھے جس سے فنانس بل پر کوئی اثر نہیں پڑنا تھا۔ سستی سیاسی بیان بازی لاحاصل مشق ہے۔

جون 2020 کا بجٹ

طاجلاس سے چند روز قبل کورونا کی صورت حال کے پیش نظر ورچوئل اجلاس کی تجویز سامنے آئی تو قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے اسے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ ’حکومت کو معلوم ہے کہ وہ بجٹ پاس نہیں کروا سکے گی اس لیے ورچوئل اجلاس بلا کر بجٹ پاس کروانا چاہتی ہے۔ اپوزیشن اس کی اجازت نہیں دے گی۔‘

گزشتہ سال بجٹ اجلاس میں شہباز شریف شریک نہیں ہوئے تھے۔ (فوٹو: ریڈیو پاکستان)

تاہم بجٹ اجلاس سے چند دن قبل 25 فیصد حاضری کے ساتھ بجٹ سیشن بلانے پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق رائے ہوگیا۔ یہ بھی محض اتفاق تھا کہ بجٹ سے پہلے ہی قائد حزب اختلاف شہباز شریف سمیت متعدد حکومتی اور اپوزیشن ارکان قومی اسمبلی کورونا کا شکار ہوگئے۔
شہباز شریف پورے بجٹ اجلاس سے غیر حاضر رہے اور پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار اپوزیشن لیڈر نے بجٹ پر بحث کا آغاز نہیں کیا۔

جون 2019 کا بجٹ اجلاس

وفاقی حکومت نے پہلا بجٹ 11 جون 2019 کو پیش کیا تھا۔ اس اجلاس میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف شریک تھے بلکہ وہ برطانیہ میں دو ماہ قیام کے بعد بجٹ سے چند دن قبل ہی واپس پاکستان پہنچے تھے۔ اس سے قبل شہباز شریف کو قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے کئی مقدمات کا سامنا تھا، جن میں آشیانہ ہاؤسنگ سکینڈل اور رمضان شوگر مل  کیس شامل تھے۔ انہیں 2018 میں نیب نے گرفتار کر کے اپنی حراست میں بھی رکھا تھا۔ بعد میں عدالت نے انہیں ضمانت پر رہا کر دیا تھا۔
 

شیئر: