’ہم یتیم قوم ہیں‘، برفباری میں پھنسی رہنے والی خاتون کی آپ بیتی
’ہم یتیم قوم ہیں‘، برفباری میں پھنسی رہنے والی خاتون کی آپ بیتی
پیر 10 جنوری 2022 11:00
سحرش ذاکر
جمعے کا دن تھا اور صبح کے 11 بج رہے تھے جب ہم خوشگوار موسم میں مری پہنچے۔ جب اسلام آباد سے مری کی طرف سفر شروع کیا تھا تو ہمیں موسم کا حال بتانے والی ایپلی کیشن کے ذریعے پتہ تھا کہ دوپہر میں ہلکی برفباری یا بارش کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
لیکن جیسے ہی کالی مٹی کے قریب پہنچے برفباری شروع ہوگئی اور ہم نے واپس اسلام آباد جانے کا فیصلہ کیا۔
کلڈنہ سے تقریباً ایک کلومیٹر کی دوری پر برفباری کے باعث ٹریفک کچھ سست روی کا شکار تھی۔ اس وقت لوگ اپنی گاڑیوں سے نکل آئے اور برف سے گاڑی گزارنے میں ایک دوسرے کی مدد کرنے لگے۔
ایسے میں دو لڑکے بھی ہماری گاڑی کے قریب آئے اور میرے شوہر کو بتانے لگے کہ انہیں سڑک پر کیسے گاڑی چلانی چاہیے اور سٹیئرنگ کیسے موڑنا چاہیے تاکہ گاڑی کنٹرول میں رہے۔
وہ لڑکے بہت خوش نظر آرہے تھے اور ان پر ایک نگاہ ڈال کر پتہ چلتا تھا کہ وہ نوجوان زندگی سے بھرپور ہیں۔ انہیں دیکھ کر کہا کہ یہ تو بہت اچھے لڑکے ہیں اور میری بیٹی نے کہا ’خدا انہیں خوش رکھے۔‘ اس کی یہ بات سن کر میں ہنس پڑی اور اسے ’بوڑھی روح‘ کا خطاب دے دیا۔
وہاں اور بھی بہت سے لوگ تھے جو خود پھنسے ہوئے تھے لیکن پھر بھی انتہائی اخلاص کے ساتھ ایک دوسرے کی مدد کررہے تھے۔
پھر ایک ایسا وقت آیا کہ ہمیں گاڑی کو روکنا پڑا کیونکہ سامنے برف کا ایک ڈھیر لگ چکا تھا اور وہاں سے آگے جانا اب ممکن نہ تھا۔ اب ہم وہاں پھنس چکے تھے اور مدد کا انتظار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔
اس سب کے باوجود اب بھی ایک جشن کا سا سماں تھا اور لوگ برف سے کھیل رہے تھے۔
تقریباً تین بجے یہ بات کر رہے تھے کہ راستہ ٹھیک ہونے میں کتنا اور وقت لگے گا۔ سورج غروب ہو رہا تھا جس وقت یہ سنا کہ برف کاٹنے کی مشین بس یہاں پہنچنے والی ہے۔
انتظار اب طویل ہوتا جا رہا تھا۔ میں اپنی گاڑی میں اپنے شوہر، دو بچوں، والدہ اور بہن کے ساتھ تھی، لیکن پھر بھی اپنی ہمت کو برقرار رکھا کیونکہ ہمارا آبائی تعلق بھی اس علاقے سے ہے اور ماضی میں بھی ایسے حالات کا سامنا کرچکے ہیں۔ ہمیں معلوم تھا کہ کچھ گھنٹوں کے انتظار کے بعد ہم گھر پہنچ ہی جائیں گے۔
اپنی گاڑی میں بیٹھے انتظار کر رہے تھے۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد میرے شوہر گاڑی سے باہر نکلتے اور لوگوں سے پوچھتے کہ کیا چل رہا ہے راستہ کب تک سفر کے لیے کلیئر ہوگا۔
رات کے تقریباً نو بجے پریشانی بڑھنے لگی تو ہم نے مقامی حکام اور پولیس کو فون کرنا شروع کیا تاکہ پتہ کرسکیں کہ کتنی دیر اور گاڑیوں میں ہی قید رہنا پڑے گا۔ کبھی لائنیں مصروف ہوتیں تو کبھی دوسری جانب سے فون ہی نہیں اٹھایا جاتا۔
اس وقت تک اندازہ ہوچکا تھا کہ یہ ٹریفک جام صرف مری کے ایک حصے تک محدود نہیں بلکہ ٹریفک کا مسئلہ پورے علاقے میں ایک جیسا ہے۔
رات کے گیارہ بجے وہاں سے پیدل گزرنے والے ایک شخص سے پوچھا کہ کیا کسی کلیئرنگ آپریشن کے بارے میں انہیں معلومات ہے؟ ان کی طرف سے جواب دیا کہ شاید صبح تک مشینری پہنچ ہی جائے گی۔
پھر میرے شوہر نے کسی سے سنا کہ اب حکام کی جانب سے کام بند کردیا گیا ہے اور یہ سنتے ہی تمام امیدیں ختم ہوگئیں اور یہ جان چکے تھے کہ پوری رات آج یہیں پھنسا رہنا پڑے گا۔
میں نے اپنے شوہر سے پوچھا کہ کیا میں قریبی بازار پیدل جاکر بچوں کے لیے کچھ کھانے کو لے آؤں؟ انہوں نے خود جانے کا فیصلہ کیا۔
اس وقت تک خاندان والوں اور دوستوں کے فون آنا شروع ہوگئے تھے۔ انہیں بتایا کہ ہم خیریت سے ہیں اور حالات بالکل قابو میں ہیں۔
حقیقیت یہی تھی کہ آرام سے اپنی گاڑی میں بیٹھے تھے جو کہ کافی گرم بھی تھی لیکن جسمانی اور دماغی طور پر تھکن کا شکار ہوچکے تھے۔
اتنے میں میرے شوہر بھی بازار سے واپس آچکے تھے اور انہیں صرف بسکٹ کے کچھ پیکٹ اور دودھ مل سکا تھا۔
میں نے اپنی بیٹی کو پورے دن پانی بھی نہیں پینے دیا تھا کیونکہ مجھے اندازہ تھا اگر پانی پیا جائے گا تو اسے پھر واش روم جانے کی ضرورت بھی پڑسکتی ہے اور یہ ایک نیا مسئلہ بن جائے گا۔ کچھ بسکٹ کھائے اور اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں ہی عافیت جانی کہ رات تو اب گاڑی میں ہی گزرے گی۔
اردگرد کا ماحول بھی اب کچھ تبدیل ہونے لگا تھا اور زندگی سے بھرپور آوازیں بھی خاموشی میں ڈوبنے لگیں تھیں۔ بہت سے لوگ اپنی گاڑیوں میں بیٹھے تھے لیکن کبھی کبھار کچھ لوگ ہمیں کلڈنہ کی طرف پیدل سفر کرتے ہوئے نظر آتے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر یہی سمجھے کہ شاید کہیں قریب میں انہوں نے رات گزرانے کے لیے کمروں کا انتظام کرلیا ہے۔ اس وقت ہم نے بھی فیصلہ کیا کہ ہمیں بھی رات گزارنے کے لیے کمرے کا انتظام کرنا چاہیے۔
اتنی شدید برفباری میں صرف کلڈنہ میں آرمی لوجسٹک سینٹر جانے کا آپشن موجود تھا۔ یہاں ماضی میں بھی کئی بار قیام کرچکے تھے۔
میری والدہ کو اب گھٹنوں میں اب تکلیف محسوس ہو رہی تھی اور لمبا سفر کرنا ان کے لیے مشکل بنتا جارہا تھا۔
ہم نے کچھ لوگوں سے رابطہ کیا اور بتایا گیا کہ تقریباً سارے ہی کمرے وہاں بک ہوچکے ہیں۔
پھر اپنی گاڑی میں واپس آگئے اور میرے گھر والے سوگئے۔ اب میرا بیٹا بھی انتظار کرکے تھک چکا تھا اور رو رہا تھا۔ میں نے اس سمجھایا کہ برف ہٹانے کی مشین بس اب پہنچنے والی ہے۔
اردگرد بھی بس یہی جملے سننے میں آرہے تھے کہ ’کون بچائے گا؟ کسی سے بولیں کہ یہاں سے باہر نکالیں۔ ہمیں گھر جانا ہے۔‘
میں نے بھی سونے کی کوشش کی لیکن پریشانی کے سبب سو نہیں پائی۔ وہ سات گھنٹے میری زندگی کے سب سے لمبے گھنٹوں میں سے ایک تھے۔ پوری رات میں برف کے طوفان کی آوازیں سنتی رہی، باقی یر چیز موت کی طرح خاموش ہوگئی تھی۔
ابھی میری شاید آنکھ لگی تھی کہ کسی نے گاڑی کا دروازہ بجایا اور کہا ’آپ لوگ اپنا سامان پکڑیں اور نکلیں۔ یہاں مدد کے لیے کوئی نہیں آئے گا۔ کم از کم گھر پہنچنے کا سوچیں باقی گاڑی بعد میں دیکھ لینا۔‘
اپنی ضرورت کی کچھ اشیا لیں اور گاڑی سے باہر نکل آئے۔ گاڑی سے باہر نکل کر جو صورتحال دیکھی وہ ناقابل یقین تھی کیونکہ باقی گاڑیاں برف سے ڈھک چکی تھیں اور نظر بھی بہت مشکل سے آرہی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے برس سے پورے علاقے پر سفید رنگ کردیا ہو۔
ہم نے پیدل چلنا شروع کیا اور کلڈنہ کی جانب لوگوں کی ایک لمبی لائین کے پیچھے چل پڑے۔ یہ ایک لمبی قطار تھی تھکے ہوئے، بے آسرا اور سامان سے لدے ہوئے لوگوں کی جو کسی نامعلوم منزل کی طرف چلی جارہی تھی۔
راستے میں کئی جگہ پینک اٹیک ہوئے اور کئی بار رونا بھی آیا۔ اسے موقع پر میرے شوہر نے کہا کہ ’یہ سفر مجھے 1947 کی اجتماعی ہجرت کی یاد دلا رہا ہے۔‘
کسی جگہ برف ہٹانے کے لیے ایک مشین نظر آئی لیکن تھوڑا سا حصہ صاف کرنے کے بعد اس مشین نے بھی کام کرنا بند کردیا۔ شاید ڈرائیور تھکا ہوا تھا یا اسے علم نہیں تھا کہ اس کے کام کرنے سے کتنی جانیں بچ سکتی ہیں۔
بہرحال جیسے تیسے کلڈنہ پہنچے تو میرے شوہر کو کسی راہ چلتے ہوئے شخص نے بتایا کہ یہاں کئی لوگ مرچکے ہیں۔ میرے دل ڈوب رہا تھا۔ مجھے تفصیل کا تو علم نہیں تھا لیکن گاڑی سے نکلتے وقت صبح کے چار بجے میں نے موت کی سی خاموشی محسوس کی تھی۔ شاید ان کی وجہ یہی تھی کہ ہمارے اردگرد کئی اموات ہوچکی تھیں۔
خیر اسی وقت کچھ لوگوں کو آرمی سکول آف لوجسٹک کے دروازے سے اندر جاتے ہوئے دیکھا۔ جیسے اندر داخل ہوئے وہاں پریشانی کے عالم میں مزید لوگ گھومتے نظر آئے۔ ایک کونے میں بیٹھنے میں عافیت جانی کیونکہ کورونا وائرس بھی ہرجگہ پھیلا ہوا ہے۔
کچھ دیر وہاں بیٹھے رہے اور اسی وقت ایک فوج کی وردی میں ملبوس ایک شخص آیا اور اس نے دل کوگرما دینے والی تقریر کی: ’یہاں آپ کے لیے ہی موجود ہیں۔ آپ کو کھانا اور شیلٹر فراہم کیا جائے گا۔‘
طرح طرح کے خیال آ رہے تھے لیکن میں نے خود کو ہی سمجھایا کہ چار دیواری کے اندر بلاکر انہوں نے ابھی ہماری مدد ہی کی ہے اور کم سے کم کچھ نہیں تو ایک چھت تو مہیا کر ہی دی ہے، جس حکومت کی یہ ذمہ داری ہے اس سے تو اتنا بھی نہیں ہوسکا۔
لوگوں کو آرمی سکول آف لوجیسٹک میں ہی دو کمرے دے دیے گئے اور یہ بھی اعلان کیا کہ وہاں ہیٹر بھی چل رہے ہیں۔ میں ایک کمرے میں داخل ہوئی لیکن جگہ نہ ہونے کے باعث باہر نکل آئی۔ میں نے وہاں بنائی گئی سیڑھیوں کے قریب ایک بینچ رکھی ہوئی دیکھی تو اپنے شوہر سے کہا کہ کیا ہم وہاں بیٹھ سکتے ہیں کیونکہ اب میری ٹانگیں میری جان لینے کے درپے ہوچکی ہیں۔ لیکن معلوم کرنے پر ہمیں پتا چلا کہ وہاں جانے کی اجازت نہیں۔
آخر کار لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے سبب انہیں بیسمنٹ بھی کھولنی پڑی اور پھر ایک کلاس روم میں داخل ہوئے اور کرسیاں پکڑ کر بیٹھ گئے۔
اتنے میں ایک شخص وہاں اندر داخل ہوا اور اعلان کیا کہ اب کچھ دیر میں ہیٹر چلا دیے جائیں گے۔ ہیٹر چلے، کچھ دیر بعد بند بھی ہوگئے اور ہمیں بتایا گیا کہ گیس کا کچھ مسئلہ درپیش ہے جس کی شکایت متعلقہ افراد تک پہنچا دی گئی ہے۔
اب میری بیٹی مسلسل رو رہی تھی کیوںکہ اس کے جوتے، موزے اور پاجامہ برف پر چلنے کے باعث گیلے ہوچکے تھے اور اس کے پاؤں نیلے پڑرہے تھے۔
ایک فوجی ہمیں دیکھ کر قریب آیا اور کہا کہ اگر کوئی بچہ گیلا ہے یا بیمار ہے تو اسے اوپر سکھانے کے لیے افسران کے کمروں میں لے جایا جاسکتا ہے۔ میری بہن میری بیٹی کو اوپر لے گئی تاکہ اس کے کپڑوں کو سکھا سکے۔
پھر ایک اور افسر آیا اور اس کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ سب کو کھانا ملے گا لیکن گیس کی کمی کے باعث کھانا زیادہ نہیں پک سکا ہے۔ اس نے آواز لگائی ’سب اپنی اپنی جگہ بیٹھے رہیں اور مل بانٹ کر کھائیں۔‘
تھک ہار کر میں پھر وہاں موجود افسر کے پاس گئی اور کہا کہ میرے بچے بہت بھوکے ہیں۔ انہوں نے ایک دیگچی جس میں کچھ چاول تھے میرے حوالے کر دی۔ میں نے ان سے کہا کہ اس دیگچی میں میرے بچے کیسے کھانا کھائیں گے؟
خیر کچھ دیر بعد میں نے ان سے وہی دیگچی لے لی کیونکہ بچے بھوکے تھے اور اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا۔
لیکن ایسا نہیں کہ وہاں موجود سب لوگ ہم سے برا برتاؤ کر رہے تھے۔ کچھ نوجوان سپاہی ایسے بھی تھے جو لوگوں کی مدد کرنے میں کافی متحرک نظر آرہے تھے۔ ایک جوان کو تو میں نے ایک بچے کے جوتے کے تسمے باندھتے ہوئے بھی دیکھا اور دوسرا ایک بچوں کو پانی کی بوتلیں بھر کر دے رہا تھا۔
شام کے تقریباً پانچ بجے میرے شوہر نے مجھے بتایا کہ میرے کزن نے کہیں قریب میں رہائش کا بندوبست کردیا ہے اور سنی بینک چوک کے قریب ہے اور ہمارے میزبان ایک ہسپتال کے سربراہ ہیں۔
ہم قریب واقع ایک کیفے پہنچ گئے جہاں گرمی کا احساس بھی ہورہا تھا اور وہاں کھانا بھی آرڈر کرسکتے تھے۔
میں خود کو بہت منافق منافق سا محسوس کیا کیونکہ میں بھی تو اس ’امتیاز‘ کے خلاف ہوں لیکن ہم انسان تو بس ایسے ہی ہیں۔
پھر میرے شوہرگاڑی لینے چلے گئے لیکن انہیں خالی ہاتھ لوٹنا پڑا کیونکہ اب تک اس جگہ کو پوری طرح سے کھولا نہیں گیا تھا۔
تقریباً چھ بجے میرے شوہر اسی جیپ میں واپس آئے اور جہاں رہائش کا انتظام ہوا تھا ہمیں وہیں لے جایا گیا۔
میں آرمی سکول آف لاجسٹک کے باہر ایک ایمبیولنسوں کو بھی دیکھا تھا اور وہاں ہسپتال میں لاشیں لائی جارہی تھیں۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ کتنے لوگ ہلاک ہوئے ہیں لیکن یہ اندازہ تھا کہ مرنے والوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔
میرے شوہر نے مجھے بتایا کہ انہیں پتہ چلا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں چار نوجوان بھی شامل ہیں اور ان میں دو وہ افراد بھی ہیں جنہوں نے گزشتہ روز ہماری مدد کی تھی۔
وہ مست و ملنگ، زندگی سے بھرپور لڑکے جو صرف تفریح کرنے آئے تھے اب اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے صرف کچھ اداروں اور حکومت کی غفلت کی وجہ سے۔
یہ سن کر میرا دل ہی ڈوب گیا۔ میرے شوہر نے مجھےمزید بتایا کہ گزشتہ روز ان کی ایک اور شخص سے سلام دعا ہوئی تھی اور اب انہیں پتہ چلا ہے کہ وہ شخص بھی اپے خاندان سمیت دنیا سے رخصت ہوچکا ہے۔
میرے دماغ میں اب بھی وہ دو جوان لڑکے گھوم رہے ہیں۔ گاڑی جب پھنسے لگی تو انہوں نے کہا ’آپ چلیں ہم نکلواتے ہیں، آپ فکر نہ کریں، سٹیئرنگ کو سیدھے ہاتھ پر کریں جب گاڑی پھسلنے لگے۔‘
دوسرے نے میرے شوہر کی کنفیوژن دیکھتے ہوئے کہا کہ ’میں گاڑی نکال دوں؟ میں ڈرائیوں کرلوں۔‘ لیکن پہلے والے نے اس منع کیا تھا ’نہیں یار فیملی بیٹھی ہے وہ کمفرٹیبل نہیں ہوں گے۔‘
بس میں صرف یہ کہوں گی کہ وہ موت کے مستحق نہ تھے۔ وہ سب بس برفباری دیکھنے آئے تھے ایک ایسے ملک میں جہاں کی حکومت کسی بھی طرح کے بحران کو قابو کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ مجھے پتہ ہے کہ یہ ایک قدرتی آفت تھی لیکن پھر بھی جانوں کو بچایا جاسکتا تھا۔ اگر مشینری نہیں بھی لائی جاسکتی تھی تو کم سے کم وہاں سرکاری اہکاروں کو تعینات کیا جاسکتا تھا جو لوگوں کو صورتحال سے باخبر رکھ سکتے تھے۔
میں یہ خیالات اپنے شوہر سے شیئر کررہی تھی تو انہوں نے کہا ’ہماری کسی کو بھی پرواہ نہیں ہم ایک یتیم قوم ہیں۔‘
ہمیں ایک دوسرے کا خود سے خیال رکھنا چاہیے کیونکہ ارباب اختیار لوگوں کو ہماری پرواہ نہیں۔ آپ کو سب کچھ اس وقت ملے گا جب آپ کی جان پہچان ہو ورنہ آپ کچھ بھی نہیں۔