دھرم سنسد اجتماع میں چند ہفتے قبل مسلمانوں کی نسل کشی کی بات کی گئی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
اگر اصولوں کے مطابق دنیا چلتی تو اترپردیش کے وزیراعلیٰ کو اب تک برخاست کر دیا جانا چاہیے تھا۔ کسی جمہوری ملک میں کسی سیکولر حکومت کا سربراہ اگر کہے کہ ریاست میں الیکشن ’80 فیصد اور 20 فیصد‘ کےدرمیان ہوگا اور اس ریاست میں حسن اتفاق سے 80 فیصد آبادی ہندو ہو اور 20 فیصد مسلمان تو ان کی بات کا مطلب نکالنے میں زیادہ دماغ لڑانے کی ضرورت نہیں پڑنی چاہیے۔
لیکن ضروری نہیں کہ ہم جو سوچ رہے ہیں وہ ہی سچ ہو۔ سچ کبھی صاف نظر آتا ہے کبھی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ جو صاف نظر آرہا ہو وہی سچ ہو۔
ہو سکتا ہے کہ وزیراعلیٰ صرف انتخابی جوڑ توڑ میں الجھے ہوئے ہوں اور اتفاقاً ان کے ذہن میں خیال آیا ہو کہ ہو نہ ہو ہماری حکمرانی اتنی اچھی تھی کہ کم سے کم 80 فیصد آبادی کے دلوں میں تو ہمارے لیے محبت جاگی ہی ہوگی۔ اور صرف اگر وہ ہی ہمیں ووٹ دے دیں تو ہم آرام سے جیت جائیں گے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ باقی بیس فیصد منفی نظریہ لے کر چلتے ہیں، انہیں تو بس مخالفت کرنی ہے۔ حقیقتاً وہ سوچ یہ رہے ہوں گے کہ یہ الیکشن نکل جائے تو باقی 20 فیصد کی ناراضگی کو بھی دور کردیتے ہیں، پھر اس طرح کا حساب لگانے کی ضرورت ہی ختم ہوجائے گی۔
آپ کے ذہن میں شاید یہ سوال آئے کہ انہیں اپنی کامیابی کا اتنا یقین کیوں ہے؟ سیدھی سی بات ہے کہ مقابلہ 80 اور 20 کے درمیان ہو تو پھر، جیسا ہم نے پہلے بھی کہا، کون جیتے گا اس کا اندازہ لگانے کے لیے زیادہ دماغ لگانے کی ضٰرورت نہیں ہے۔
یہ بات بار بار دہرانا زیادہ اچھا بھی نہیں لگتا کیونکہ سچ یہ ہےکہ آج کل لوگ دماغ پر زیادہ زور ڈالنا پسند نہیں کرتے۔ چاہے وہ حکمراں ہوں یا ووٹر۔ شاید دونوں کو ہی لگتا ہے کہ جب ایسے ہی کام چل رہا ہے تو اپنی ذہنی توانائی کیوں ضائع کی جائے، جب کبھی بالکل ضروری ہو جائے گا تو دیکھا جائے گا۔
ویسے بھی سنا ہے کہ دماغ پر زیادہ زور ڈالنے سے بال جلدی سفید ہو جاتے ہیں۔
آپ کو ایک اور مثال دیتے ہیں۔ اس دھرم سنسد یا مذہبی اجتماع کو ہی لے لیجیے جس میں چند ہفتے قبل مسلمانوں کی نسل کشی کی بات کی گئی اور آپ مانیں یا نہ مانیں ’صفائی‘ کی اس مہم میں فوج کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی
اب اس ریاست کی حکومت دماغ پر زور ڈالتی تو ایسی اشتعال انگیز باتیں کرنے والے تمام مذہبی رہنما اس وقت جیل میں ہوتے۔ لیکن وہ نہ صرف آزاد گھوم رہے ہیں بلکہ حکمرانوں کی جانب سے ان کے بیانات کی مذمت تک نہیں کی گئی ہے۔
اس کی دو وجہ ہوسکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ حکمراں اس نظریے سے اتفاق کرتے ہوں، جو ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ ایک سیکولر اور جمہوری ملک ہے اور دستور ہند ہر شہری کو مساوی حقوق دینے کا وعدہ کرتا ہے اور ہم نے ہر سیاسی رہنما کو ہمیشہ یہ ہی کہتے ہوئے سنا ہے کہ ان کے لیے آئین سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے، اور دوسرا یہ کہ انہیں لگتا ہو کہ کچھ سادھوؤں کی بات کو کون سنجیدگی سے لیتا ہے کہ اس پر اپنا وقت برباد کیا جائے۔
شاید وہ سوچ رہے ہوں کہ سادھو اپنے دماغ پر زول ڈالیں گے تو انہیں خود اپنی غلطی کا احساس ہو جائے گا اور جب انسان کو خود اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے تو یہ سبق وہ تاحیات یاد رکھتا ہے۔
اب سچ کیا ہے کہنا مشکل ہے، جیسا ہم نے پہلے بھی کہا کبھی کبھی سچ تلاش کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ یہ خطرہ تو ہمیشہ رہتا ہی ہے کہ جو نظر آرہا ہے ضروری نہیں کہ وہ سچ ہی ہو۔
اور دلوں کا حال کون جان سکا ہے؟ اس کا سادہ جواب ہے کہ زمین پر تو کوئی نہیں۔
لیکن اس کے باوجود کچھ لوگ ہیں جو باز نہیں آتے۔ ان میں بہت سے سابق اعلیٰ فوجی افسران اور سفارتکار بھی شامل ہیں۔ مثال کے طور پر بحریہ کے سابق سربراہ ایڈمیرل وشنو بھگوت جنہوں نے دھرم سنسد کے پلیٹ فارم سے کی جانے والی اپیل کے خلاف وزیر اعظم کو بھیجے جانے والے ایک خط پر دستخط کیے ہیں۔ خط پرسائن کرنے والوں میں بحریہ کے چار دیگر سربراہ اور ایک سابق ایئر چیف بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، کھل کر اپنے خذشات کا اظہار کرنے والوں میں رگھو رمن جیسے لوگ بھی ہیں جو نیشنل انٹیلیجنس گرڈ (نیٹ گرڈ) کے بانی سربراہ تھے۔ (یہ ادارہ ممبئی پر حملوں کے بعد قائم کیا گیا تھا)۔
پوائنٹ یہ ہے کہ یہ ہم جیسے لوگ نہیں ہیں جن کی باتوں کو یہ کہہ کر نظرانداز کر دیا جائے کہ ان کی باتوں کو کون سنجیدگی سے لیتا ہے۔ بنیادی طور پر ان سب کا کہنا یہ ہے کہ انڈیا کے سامنے دو بڑے بیرونی چیلنج ہیں، ایک پاکستان کی طرف سے اور دوسرا زیادہ بڑا چیلنج چین کی طرف سے اور ملک کو اگر ان دونوں محاذوں پر مستعدی اور مضبوطی سے مقابلہ کرنا ہے تو ملک کے اندر (آدھا) محاذ کھولنے کا جواز سمجھ میں نہیں آتا۔ سادہ الفاظ میں پیغام یہ ہے کہ ملک کے اندر اتحاد قائم کرنے پر وقت لگائیں انتشار پھیلانے پر نہیں۔
جہاں تک ہمیں معلوم ہے ان سینیئر افسران میں سے کوئی بھی ان 20 فیصد میں شامل نہیں ہیں جو اتر پردیش کے وزیراعلیٰ کے مطابق منفی نظریہ لے کر گھومتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کی بات توجہ سے سنی جائے۔
بس دماغ پر تھوڑا زور ڈالنے کی ضرورت ہے۔ حکومتوں کو بھی اور ووٹروں کو بھی۔
کوشش یہ کیجیے کہ یہ الیکشن اسی اور بیس کےدرمیان نہ ہو۔