امن کے قیام کے وعدے پھر بھی جلال آباد میں ’خوف کا راج'
افغانستان کے شہر جلال آباد میں داعش کے جنگجو سرگرم ہیں۔ فائل فوٹو: اے پی
افغانستان میں طالبان کے امن قائم کرنے کے وعدے کے باوجود مشرقی شہر جلال آباد میں خوف کا راج ہے جو داعش گروپ کے حملوں اور انتقامی کارروائیوں کی زد میں ہے، اور شہر کے پانی کے نالوں میں بعض اوقات پراسرار طور پر لاشیں تیرتی نظر آتی ہیں۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق افغانستان کے صوبہ ننگرہار کے تجارتی مرکز جلال آباد کے شام ڈھلتے ہیں کاروبار بند کرنے کی جلدی میں ہوتے ہیں تاکہ رات پڑنے اور فائرنگ شروع ہونے سے پہلے اپنے گھروں کو پہنچ سکیں۔
شہر کے باشندوں کو داعش کے حملوں اور ان کے خلاف طالبان کی جوابی کارروائی میں نشانہ بننے کا خوف لاحق ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جلال آباد میں داعش کے مقامی گروہ کی کارروائیوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔
خیال رہے کہ داعش کے جنگجوؤں نے سنہ 2020 میں طالبان کے امریکہ کے ساتھ ملک سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے معاہدے کو قبول نہیں کیا تھا۔
مغرب کے ساتھ کسی بھی سمجھوتے کے مخالف داعش کے بنیاد پرست جنگجوؤں کی افغانستان میں تعداد ایک اندازے کے مطابق دو سے چار ہزار کے درمیان ہے۔
اے ایف پی کے مطابق افغانستان میں 80 ہزار طالبان جنگجو موجود ہیں۔
داعش اور افغان جنگجو گروپوں کے درمیان نظریاتی فرق یہ سمجھا جاتا ہے کہ طالبان غیر ملکی افواج کا افغانستان سے انخلا چاہتے تھے تاکہ اپنا نظام نافذ کر سکیں جبکہ داعش کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ شدت پسند گروپ متعدد اسلامی ملکوں میں اپنے طرز کا خلافت کا نظام نافذ کرنے کے لیے سرگرم ہے۔
انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے ایک افغان امور کے ماہر ابراہیم باہیس کا کہنا ہے کہ طالبان کے ملک کا کنٹرول سنبھالنے اور جیلوں سے قیدیوں کی رہائی سے داعش گروپ مضبوط ہوا کیونکہ اس کے بہت سے جنگجوؤں کو رہا کیا گیا تھا۔
باہیس کا کہنا ہے کہ اس کے بعد سے 'طالبان کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا'، خواہ وہ اسے کتنا ہی کم بتانے کوشش کریں۔