ان کے ترجمان نے سابق وفاقی وزیر کے انتقال کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ رحمان ملک کو سانس لینے میں مشکلات ہوئیں تو انہیں اسلام آباد کے نجی اسپتال میں وینٹیلیٹر پر منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ کئی روز تک زیر علاج رہنے کے بعد وفات پا گئے ہیں۔
سینیٹر رحمان ملک کے پھیپھڑے کورونا وائرس کی وجہ سے متاثر ہوئے تھے۔ میت کو گھر منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ نمازِ جنازہ اور تدفین جمعرات کو اسلام آباد میں ہوگی۔
پیپلزپارٹی کے رہنما رحمان ملک نے سوگواروں میں بیوہ اور دو بیٹوں کو چھوڑا ہے۔
پیپلزپارٹی کے رہنما رحمان ملک کا شمار بے نظیر بھٹو کے بااعتماد ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان میثاق جمہوریت میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
سینیٹر رحمان ملک 12 دسمبر 1951ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق پنجاب کے ضلع سیالکوٹ سے تھا۔
رحمان ملک نے اپنے کیریئر کا آغاز فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) میں بطور ڈائریکٹر کیا تھا۔ بے نظیر بھٹو جلا وطن ہوئیں تو رحمان ملک بھی جلا وطن ہو گئے اور ان کے ساتھ ہی واپس آئے۔
2008 کے انتخابات ہوئے تو انھیں وزیراعظم کا مشیر برائے داخلہ تعینات کیا گیا۔ بعد ازاں وہ سینیٹر منتخب ہوکر وزیر داخلہ بن گئے۔
وزارت داخلہ سے سبکدوش ہونے کے بعد وہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین بھی رہے۔
پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت میں وہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان اختلافات کی صورت میں پل کا کردار بھی ادا کرتے رہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں رحمان ملک نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر ان کے کردار کو سراہا جاتا رہا ہے۔ کراچی یونیورسٹی نے انھیں پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری دی تھی جبکہ حکومت نے بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کی خدمات پر انہیں ستارہ شجاعت اور نشان امتیاز سے نوازا تھا۔
اپنی زندگی میں رحمان ملک کئی تنازعات کا شکار بھی رہے۔ امریکی بلاگر سنتھیا رچی نے ان پر الزامات لگائے تاہم عدالت میں جانے کے بعد دونوں کے درمیان صلح ہو گئی۔
رحمان ملک کو میڈیا میں رہنے کا فن آتا تھا۔ اپنے دور حکومت میں وہ دن میں متعدد مرتبہ میڈیا سے مخاطب ہوتے تھے۔
رحمان ملک نے کئی کتابیں بھی لکھی تھیں جن میں مودی وار ڈاکٹرائن، داعش اور ٹاپ 100 انویسٹی گیشنز شامل ہیں۔
وفات سے کچھ عرصہ قبل رحمان ملک نے اپنا ایک تھنک ٹینک بھی بنا لیا تھا جس کے تحت وہ اہم مواقع پر تقاریب کا انعقاد کرتے تھے اور تحقیقاتی پیپرز شائع کرنا شروع ہو گئے تھے۔