دورہ روس سے پہلے سرمائی اولمپکس کے تناظر میں چین کا بھی اعلیٰ سطحی دورہ ہوا (فوٹو: فواد چوہدری ٹوئٹر)
وزیراعظم عمران خان کا اعلیٰ سطح کے ایک وفد کے ساتھ روس کا دورہ مکمل ہوا۔ دورے کی ٹائمنگ یوکرین اور روس تنازع کی وجہ سے بھی اہمیت اختیار کر گئی۔ اس ٹائمنگ پر نقطہ نظر موجود ہیں۔ کچھ مبصرین کے خیال میں اس وقت دورے سے مغربی طاقتوں کو غلط پیغام گیا ہے جبکہ دوسری طرف یہ بھی رائے ہے کہ اس دورے سے پاکستان کی پوزیشن مستحکم ہی ہوئی ہے۔
دورہ تو اب ہو چکا مگر یہ ضرور ہے کہ پاکستان کچھ عرصے سے خارجہ امور پر متحرک دکھائی دیا ہے۔ اس سے پہلے سرمائی اولمپک کے تناظر میں چین کا بھی اعلیٰ سطحی دورہ ہوا اور اس سے پیشتر او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی بھی اہم بیٹھک منعقد کی گئی۔ آگے 23 مارچ کو یوم پاکستان کے حوالے سے بھی کئی اہم شخصیات کی آمد متوقع ہے۔
خارجہ امور میں حالیہ پیش رفت کے ساتھ ساتھ حکومت کے خارجہ فرنٹ پر کئی نشیب و فراز آئے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ افغانستان کے مسائل پر سرد مہری اب تک چل رہی ہے۔
ابھی طالبان کی حکومت کی عالمی سطح پر شناخت میں پیش رفت ہونا باقی ہے۔ چین اور سی پیک سے جڑے معاملات میں بھی کافی متضاد خبریں آتی رہیں۔ دیگر اتحادیوں بشمول، ترکی اور ملائشیا کے حوالے سے بھی کبھی بہت امیدیں بندھ جاتی ہیں اور کبھی عرصے تک کوئی خبر نہیں آتی۔
سوال یہ ہے کہ خارجہ پالیسی کے ان نشیب و فراز کے پیچھے کیا عوامل ہیں؟
سب سے پہلے تو خارجہ امور میں کوئی نتیجہ نکلنے کے لیے کافی عرصہ درکار ہوتا ہے جبکہ حکومت کی طرف سے یہ تأثر سامنے آتا ہے کہ گویا کچھ ہی عرصے میں کایا پلٹنے والی ہے۔ ابھی روس کے ساتھ گیس اور گندم سے لے کر کئی دیگر امور پر خوش گوار خبریں سامنے آئیں ہیں، مگر ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ وسط ایشیا سے گیس پائپ لائن کا منصوبہ کافی پرانا ہے اور عرصے سے اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ آئندہ بھی شاید فوری اقدامات کی توقع کم ہے۔ اسی طرح سی پیک کا منصوبہ ہو یا علاقائی تعاون کے دیگر منصوبے، کئی برس میں ان کا ثمر سامنے آتا ہے۔ مگر پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کی طرف سے بڑھائی گئی توقعات ہی بعد میں ان کے سامنے آتی ہیں۔
فوری نتائج کی توقع کے ساتھ ساتھ عمران خان صاحب کے ذاتی اثر اور شخصیت کی بات ہو تو حکومت کے جانثار اور ترجمان جذباتی ہو جاتے ہیں۔ خارجہ پالیسی میں شخصیات سے زیادہ ملکوں کے مفادات اور ان کی معیشت کی اہمیت ہوتی ہے۔
رسمی بات چیت اور مذاکرات میں ہر سربراہ حکومت کو پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ اچھے الفاظ اور انداز میں برتاؤ بھی ہوتا ہے۔ یہ سب گویا سفارتی آداب کا تقاضا ہوتا ہے۔ اس سے یہ مطلب نکالنا تھوڑا غیر حقیقت پسندانہ ہوگا کہ جیسی آؤ بھگت ہماری ہوئی ویسی کسی کی نہیں ہوئی ہوگی اور اب بس دونوں ملک ہر ایشو پر یکجا ہی ہو جائیں گے۔
ملکوں کے تعلقات ذاتی دوستی سے مختلف ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کا ادراک خارجہ پالیسی کے لیے ضروری ہے ۔
تیسرا اہم ایشو مختلف ممالک کے آپس میں تنازعات اور نزاکتوں کو سامنے رکھ کر ایک متوازن اور پروفیشنل خارجہ پالیسی تشکیل دینا ہے۔ اس حکومت کے ساتھ یہ دیکھا گیا ہے کہ کابینہ کے اکثر غیر متعلقہ وزیر خارجہ پالیسی پر بیانات اور ٹویٹ کرتے پائے جاتے ہیں۔
ان بیانات کا مقصد بیرونی کی بجائے اندرونی رائے عامہ کو متاثر کرنا ہوتا ہے۔ ان بیانات میں ایسے تاثر دیا جاتا ہے جیسے کئی بڑے ملکوں کے دیرینہ تنازعات بھی ہم ہی حل کرنے والے ہیں۔ آج کل کے انفارمیشن دور میں یہ punching above the weight کی مثال بن کر سامنے آتی ہے۔ اس میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ خارجہ امور میں ہونے والی پیش رفت کو مہنگائی اور گورننس کے مسائل کے نعم البدل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جس سے دونوں طرف فائدے کی بجائے نقصان ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔
آخر میں پاکستان کے خارجہ امور کے میدان میں مشکل اور نازک مسائل ہیں۔ سب سے پہلے معاشی چیلنجر پہاڑ کی طرح سامنے کھڑے ہیں۔ زیادہ تر معاشی مسائل کا تعلق بیرونی معاملات سے ہے۔ فیٹف کا مسئلہ بھی ابھی تک الجھا ہوا ہے۔ پاکستان کا گرے لسٹ سے نکلنا ضروری اور اہم ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے دباؤ کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی نظر آ تا ہے۔ آئی ایم ایف میں بھی مغربی طاقتوں کے مفادات کا رول رہتا ہے اور وہ سیاسی مفادات کے لیے معاشی پابندیوں کو کھلے عام استعمال کرتے ہیں۔
روس کے خلاف تو معاشی میدان میں صف بندی ہو چکی مگر چین کے ساتھ بھی معاملات بگڑنے کا ہی امکان ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے لیے ایک سنجیدہ اور دیر پا خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے۔ ایسی خارجہ پالیسی جو ملک کے معاشی اور قومی مفادات کو سامنے رکھ کر تشکیل پائے اور جس میں نشیب و فراز کی بجائے مستقل مزاجی کا عنصر نمایاں ہو۔