Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جنوبی افریقہ میں ایمان افروز عشرہ کی روداد

اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو آیا ہے، اسے اللہ کی مراد کے مطابق اور رسول اللہ کی طرف سے جو آیا ہے، اسے رسول اللہ کی مراد کے مطابق مانا جائے

 ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ۔ مکہ مکرمہ

سفر یا تو اپنے موضوع اور مقصد کے اعتبار سے ایمانی ہوتا ہے کہ سفر سے غرض ایمانیات پر کام اور ان کا افصاح وبیان مقصود ہو یا پھر پیش آمدہ احوال وواقعات اسے ایمانی بنا دیتے ہیں۔ مکہ مکرمہ سے 4 مارچ سے 14 مارچ تک ایک عشرے کا سفر علمی وتحقیقی تو تھاہی کہ موضوعات علمیہ کی تبیین کی خاطر تھا مگر وہ ایمانی بھی کئی اعتبار سے ہوگیا۔ موضوع اور مقصد بھی ایمانی امور اور دینی مسلمات کی تبیین وافصاح، جیسے کہ عقیدئہ ختم نبوت، قادیانی باطل نظریہ ظل وبروز، عصمت انبیاء ، اصحاب رسول کی تشریعی حیثیت ،اسلام کے مقامات مقدسہ مسجد حرام، مسجد اقصیٰ کی قدسیت وحرمت، اسلام کی وسطیت، اسلامی احکامات کے مراتب جیسے ایمانی اور علمی وتحقیقی موضوعات میں علماء کرام کی تربیت کی غرض سے میرا یہ سفر تھا۔ جو لوگ ہمارے ایمانیات ومسلمات میں مذموم مساعی میں مصروف ہیں اور وہ اسلام کے نام پر غیر اسلامی نظریات کا پرچار کر رہے ہیں، قدیمی اور حقیقی اسلام کی جگہ جدید محرف اسلام پیش کرنا ان کی لگن ہے، ہماری غرض سفر ان امور میں علماء، خطباء، مدرسین اور طلبہ حضرات کی جنوب افریقہ کے بعض تعلیمی اداروں میں تربیت کہ ہمارے یہ واجبات اپنے میدان عمل میں اُن فتنوں کی سرکوبی کرسکیں جو اسلام کے نام پر ابھرتے ہیں۔

جو لوگ قرآن وسنت کی نصوص ظاہرہ سے استدلال کرتے ہیں اور قرآن وسنت کے معانی مطالب کو نہ صرف قبول نہیں کرتے بلکہ انہیں تبدیل کرتے ہیں، پھر ان کے شرعی مفاہیم ومطالب میں تشکیک بھی پیدا کرتے ہیںاور اپنے گمراہ کن غیر شرعی اور خلاف کتاب وسنت عقائد کی ترویج میں مصروف عمل بھی ہیں اور آج وہ اس مقصد کی خاطر جدید ترین ذرائغ ابلاغ عامہ کو بے دریغ استعمال میں لاتے ہیں۔

وہ ٹی وی ہو، یوٹیوب ہو، فیس بک ہو یا ٹویٹر الغرض قادیانیت کے جدید نشرو اشاعت کے جملہ اسباب مخصوص ہیںاور ظلم عظیم یہ ہے کہ وہ اسلام کے نام پر اسکی بیخ کنی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ہمارے اس سفر کا آغاز4 مارچ کوہوا۔ہم جوہانسبرگ پہنچے اور وہاں سے ڈربن جانا تھا۔ سعودی ائر لائنز کے ذریعہ جدہ سے تو دوبیگ لے جا سکتے تھے مگر جوہانسبرگ سے ڈربن صرف ایک بیگ لے جانے کی اجازت تھی لہٰذا کتب کا ایک بیگ جوہانسبرگ ہی چھوڑ دیا۔ ہمارے پرانے رفیق کار حضرت مولانا علاؤ الدین،سابق مدرس مدرسہ صولتیہ، حال مدرس دارالعلوم جوہانسبرگ کے بڑے صاحبزادے شیخ محمد علاء نے یہ خدمت سرانجام دی اور راقم جوہانسبرگ اتر کر کتب کا ایک بنڈل ان کے سپرد کرکے ڈربن کے لئے ساؤتھ افریقن ایئر لائن کے ذریعہ روانہ ہوگیا ۔اس سفر کو ایمانی سفر اس لئے بھی کہتا ہوں کہ یہاں پر میرے اصل منتظم برائے سفر واقامت نہ صرف ڈربن سے باہر تھے بلکہ وہ ساؤتھ افریقہ سے بھی دور ترکی میں تھے اور کثرت اشغال کی وجہ سے انہیں یہ یاد ہی نہ رہا کہ میں نے اسی ہفتہ کو قبل از دوپہر ڈربن پہنچ کر بعد از عصر اپنے احباب علماء کرام سے پہلی نشست میں خطاب کرنا ہے۔ میں اپنے منتظم کے انتظار میں تھا کہ وہاں کے کسی مسلمان تاجر نے مجھے دیکھا اور پوچھا کہ حضرت آپ کسی کے انتظار میں ہیں؟ میں نے کہا فلاں صاحب کے انتظار میں ہوں تو انہوں نے فوراً ان سے فون پر رابطہ کیا تو انہوں نے فون اٹھا لیا اور مجھے کہنے لگے میں نے تو یہ سمجھ رکھا تھا کہ آپ پیر کو آئیں گے لہٰذا میں نے آپ کے لئے علمائے کرام کی علمی نشست کا انتظام پیر سے کیا ہوا ہے۔ آپ یہ دو دن ہفتہ اور اتوار راحت وسیاحت کرلیں۔

کہاں راحت اور کہاں کی سیاحت اور کس کے ساتھ؟ یہ معلوم نہیں۔ اس وقت معمولی سا افسوس تو ہوا مگر پریشانی بالکل نہیں کہ میرا تو یہ سفر ہی ایمانی تھا اور قدم قدم پر اس کی نصرت کا مشاہدہ کرنا میرے مقدر تھا جو واقعی میرے شامل حال رہی۔ میری راحت تو ہمیشہ کاز میں ہوتی ہے اور سیاحت اللہ کی اس کائنات کے فقط مشاہدہ سے مگر اللہ تعالیٰ کی نصرت کہ واقعی رحمان ورحیم نے اسکا غیب سے انتظام فرمایا۔ الحمد للہ کہ ڈربن میں ہمارے پرانے دوست مولانا ہارون عباس جنہیں احتیاطی طور پر اطلاع کر دی تھی، ان کے صاحب زادے مولانا محمد ڈربن ایئر پورٹ پر پہنچ گئے۔ میں ابھی اپنے منتظم سے محو گفتگو تھا۔ انہوں نے آتے ہی فرمایا والد صاحب نے مجھے بھیجا ہے، ساتھ ہی کہنے لگے دیر تو نہیں ہوئی؟ والد صاحب نے مجھے پابندئ وقت کی تاکید کی تھی کہ الحمد للہ ان کے والد صاحب میری پابندئ وقت کی عادت سے خوب واقف تھے۔ میں نے سوچا کہ یہ غیبی نصرت کا پہلا مظہر ہے۔ میں مولانا محمد کے ساتھ مولانا ہارون عباس کے ہاں پہنچا تو یہ ہفتہ کا دن تھاجو میرے ہاں مکہ مکرمہ میں ہفتہ واری درس کا دن ہوتا ہے۔

میں فکر مند ہوا کہ میں تو ساؤتھ افریقہ بغرض تدریس وتربیت آیا ہوں، غرض سفر سیاحت مطلقہ نہیں ،وہ تو خود بخودبلا نیت حاصل ہو جاتی ہے۔ جب مولانا ہارون کو میری اضطرابی کیفیت کا علم ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ دوپہر کا کھانا کھا کر عصر تک کچھ آرام کر لیں۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ نماز عصر پڑھی تو مولانا نے فرمایا کہ آپ کی کلاس آپ کی منتظر ہے۔ میں نے کہا واقعی! یہ نصرت ربانی کا دوسرا مظہر ہے۔ میں نے اپنے منتظم کو صرف10 علماء کو جمع کرنے کی تاکید کی تھی مگر میری اور مولانا ہارون کی کچھ فکر زائد ہی ہوگئی کہ15 علمائے کرام قلم وقرطاس کے ساتھ جیسے کہ میں چاہتا تھا تلقی کی خاطر بطریق احسن بیٹھے ہوئے تھے ۔گویا کہ کئی روز قبل یہ پیشگی انتظام ہوا ہوا ہو۔ سبحان اللہ! اس صورت حال کو دیکھ کر میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور میرے اس یقین میں خوب اضافہ ہوا کہ بندے کا کام صرف اخلاص سے فکر کرنا ہے، بقیہ اتمام تو مسبب الاسباب ہی کرتا ہے۔ مولانا ہارون عباس نے کہا میں نے آپ کی کیفیت دیکھ کر ان حضرات کو آج ہی دعوت دی ہے مگر جو حضرات حاضر ہوئے ہیں ،یہ یہاں کے ذمہ دار، تجربہ کار اور اہل علم وقلم حضرات ہیں۔ مجھے ان کی حاضری پر خود بھی حیرانگی ہے۔ ان میں بعض آپ کی تحریرات سے بھی متعارف ہیں، مقالات مکیہ میں سے اولین مقالہ ’’دین‘‘ اُسکے لغوی وشرعی مفہوم، دین کے مأخذ، ان سے اخذ کی شرائط، احکام دین کے مراتب، ان کے شرعی آداب، وسطیت اور دین پیش کرنے کے لئے رجال دین کو کن اسالیب کو اختیار کرنا ہے، ان موضوعات پر عصر تا مغرب مفصل بات ہوئی۔ پھر مغرب سے عشاء تک اپنے مقالہ کفر واسلام کا شرعی ضابطہ، اس کے تحت شرعی نصوص کے ساتھ انسانی تعامل کی3 انواع کا بیان ہوا کہ انسانوں کا ایک فریق تو نصوص شریعت کو ان کے شرعی مفاہیم ومطالب کے ساتھ لیتا ہے۔

یہ اہل ایمان وتسلیم ہیں، انسانوں کا دوسرا فریق شرعی نصوص، شارع اور شریعت سے بالکل واقف ہی نہیں، یہ اہل کفر ہیں۔ تیسرا فریق نصوص شریعت کا اقرار تو کرتا ہے، وہ قرآن کو کلام اللہ تو کہتا ہے اور حدیث کو حدیث رسول بھی کہتا ہے مگر ان کے شرعی مفاہیم ومطالب تسلیم نہیں کرتا۔ وہ شارع کی نصوص میں اپنی طرف سے خود ساختہ مفاہیم متعین کرکے ان نصوص کو ان پر محمول کرتا ہے، یہ اہل الحاد ہیں، الحاد کا یہی معنی ہے کہ لفظ تو شرعی ہوں، معنی اور مفہوم غیر شرعی ہو جبکہ ایمان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو آیا ہے، اسے اللہ کی مراد کے مطابق اور جناب رسول اللہ کی طرف سے جو آیا ہے، اسے رسول اللہ کی مراد کے مطابق مانا جائے کیونکہ جسے شارع کی مراد قبول نہ ہو، شارع کو اس کا اقرار بھی قبول نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جناب محمد رسول اللہ کو ’’خاتم النّبیین‘‘ فرمایا ہے۔ آنحضرت نے اپنے ’’خاتم النّبیین‘‘ ہونے کی خود تفسیر بھی فرمائی کہ میں خاتم النّبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ اس میں اہل ایمان و تسلیم کا شیوہ یہ ہے کہ شرعی نص کو شرعی مراد کے ساتھ مانیں۔ رہے اہل کفر تو وہ نہ شرعی الفاظ کو جانتے ہیں نہ شارع کی مراد سے واقف ہیں۔ اس موقع پر اہل اسلام کا شرعی کردار، انہیں خوب جھنجھوڑنا ہے کہ آج کی دنیا میں علوم ومعارف کو پھیلانا، انہیں حقائق ایمانی کو سمجھنا اور سمجھاناکسقدر آسان ہے مگر کیا وجہ ہے کہ آج کا انسان پھر بھی معارف اسلامیہ سے دور رہے؟ اگر وہ بالکل ناواقف ہے تو اسمیں ہمارا کس قدر قصور ہے؟ یقینا ہمارے لئے یہ حساس نقطہ ہے اور قابل تفکر موقف بھی۔ دوسرا قابل تفکر موقف یہ ہے کہ اہل الحاد شرعی نصوص کو جن نئے معانی کا لبادہ پہناتے ہیں، وہ لغت، شریعت، اجماع امت اور مراد شارع کے سراسر خلاف ہوتے ہیں۔ وہ اپنے دجل اور مکر سے انہیں عوام کے سامنے جذاب بنا کر، قابل قبول بنانے کی مساعی کرتے ہیں، ہمارے ہاں علمائے کرام کی تربیت کی مجالس میںاس امر کا استحضار کیا جاتا ہے کہ ہماری شرعی نصوص عربی زبان میں ہیں ان کے مطالب شارع کی طرف سے متعین ہیں مگر اہل الحاد اپنے دجل کے حیلوں سے ان کے گرد شبہات کا غبار گراتے رہتے ہیں ۔وہ ان میں تحریف کرتے ہیں ،ان کا یہ عمل ایسا گھناؤنا کردار ہے جسکی خطر ناکی سے عمومی عوام واقف نہیں ہوتے ۔ پھر عوام تو ان کے ردود پیش کرنے کی صلاحیت کے مالک نہیں ہوتے۔ اسلامی مسلمات اور دینی ثوابت کی تبیین وافصاح، پھر ان کا اہل تحریف سے تحفظ یہ عوام کا کام نہیں، یہ وارثان نبوت کا شرعی وظیفہ ہے۔ ان شرعی حقائق کو ان کے اصلی منور چہرے اور خوبصورت شکل وصورت میں پیش کرنا یہی علمائے اسلام کا طرّئہ امتیاز ہے۔ وہ یہ عمل کس طرح خوش اسلوبی سے ادا کریں، اسی عالی غرض کے لئے انٹر نیشنل ختم نبوت موومنٹ دنیا میں مختلف مساعی کر رہی ہے۔ ان ایام میں ساؤتھ افریقہ ڈربن میں دوروزہ تربیتی ورکشاپ انہی مساعی کا ایک حصہ ہے۔

ڈربن میں علمائے کرام کا دوروزہ تربیتی کورس مذکورہ عناوین پر مشتمل رہا اور آخر میں شرکاء کو شرکت کا سر ٹیفکیٹ بھی دیا گیا۔ ان شاء اللہ یہ سر ٹیفکیٹ ہمیشہ انہیں اسلامی مسلمات کے بارے میں مزید مطالعہ اور اہل الحاد کے شبہات پر کام کرنے کی دعوت دیتا رہے گا، اسی نیت صالحہ سے اسناد بھی تقسیم کی گئیں۔ ڈربن میں ایک دعوت ولیمہ میں شرکت اور خطاب کا بھی موقع بھی ملا، جس میں راقم نے کہاکہ باری تعالیٰ نے جو خالق انسان ہے ، اس نے انسان کی بشری حاجات اور روحانی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے انتظامات فرمادئے ہیں۔ بشری ضروریات کے مطابق الحمد للہ جائز اور مشروع راستے مقرر فرما دئیے ہیں اور یہ خالق کی سنت قدیمہ ہے، قرآن کریم یوں کہتا ہے: یقینا ہم نے آپ سے پہلے رسول بھیجے اور ہم نے ان کے لئے بیویاں اور بچے بنائے۔ گویا کہ ہر دور میں حضرت انسان کی بشری خواہشات کو جائز طریقوں سے پورا کرنے کا نظام ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ پھر حضرت انسان کو تعلیم دی کہ تمہاری آنکھوں کے سامنے دو راستے ہیں، ایک تو مشروع (جائز) ہے اور دوسرا ممنوع (محرم) ہے۔ پھرجائز راستے کے منافع اور اچھے اثرات، فرد، خاندان اور معاشرے پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ انہیں بھی شریعت نے سمجھایا ہے جبکہ ممنوع راستے کی تباہیوں سے بھی آگہی فرمائی، جن سے کہ سبھی متاثر ہوتے ہیں۔ اختیار حضرت انسان کودے دیا، یا تو وہ اپنے رب کے وضع کردہ راستے کو اختیار کرلے ، اسکی رضا سے بھی مشرف ہواور اس راستے کے دنیوی اور اخروی منافعوں سے بھی مستفید ہو، یا رب کے مخالف راستے کو اپنا کر اپنی، اپنے خاندان اور معاشرے کی تباہی کو خود اپنے ہاتھوں ہی خرید لے۔

اسلام نے حریتِ اختیارِ رائے اس لئے دیا ہے کہ اسکی جزاء وسزا کا نظام محکم اصولوں پر مبنی ہے۔ ڈربن ہی کے مدرسہ تعلیم القرآن اور مدرسہ تعلیم الدین میں حدیث شریف کے طلبہ کو اجازت حدیث بھی دی گئی اور علوم کتاب وسنت کو سند متصل سے حاصل کرنے کی افادیت سے بھی آگاہ کیا گیا کہ دین کے نام پر اٹھنے والے جس قدر فتنے ماضی میں اٹھے، آج حال میں ہیں یا آئندہ مستقبل میں اٹھیں گے، ان کا سبب صرف اور صرف ایک ہی ہے اور وہ سبب واحد یہی ہے کہ لوگ ’’دین‘‘ میں سلف تک اپنی سند متصل اور رشتہ علمی کو توڑ دیں، جن لوگوں کی علمی اور شرعی سند سلف وصالحین کے سلسلہ سے جناب رسول خاتم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کٹ جائے گی تو وہ خود بھی گمراہ ہونگے اور دیگر کو بھی گمراہ کریں گے۔ ڈربن کے دوروزہ پرو گرام کے بعد ہمارے ذی وقار مفتی زبیر نے جو ہمارے اس سفر کے ناظم تھے،3 روزہ تربیتی پرو گرام برائے علماء کرام پیٹرمیرٹس برگ کے دارالعلوم ترتیل القرآن کریم میں طے کر رکھا تھا جہاں پر علاقہ بھر کے مختلف اداروں کے مدرسین وناظمین حضرات تربیتی کورس بعنوان ’’اسلام کے نام پر اٹھنے والے فتن کے مقابلہ کے لئے علماء کرام کی تربیت‘‘ میں شریک ہوئے۔ دار العلوم ترتیل القرآن میں علم قرأت اور علوم شریعت میں عالی درجہ تک تعلیم ہوتی ہے۔

قرأت عشرہ اور دورئہ حدیث تک طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ دارالعلوم ترتیل القرآن کے وسیع ہال میں یہ کورس ہوا، جہاں پر مدرسین اور طلبہ کے تعلیم وتعلم کے عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے شاندار انتظامات کئے گئے۔میرے لیپ ٹاپ میں محفوظ مقالات مکیہ کو پروجیکٹر کے ذریعہ شرکاء حضرات پر پیش کرنے کا انتظام بھی کیا گیا۔ پھر تدریس کا دورانیہ ہر روز صبح9بجے سے ایک بچے ظہر تک رہا۔ الحمد للہ یہاں جن موضوعات پر مفصل گفتگو ہوئی ،ان میں دینی دعوت کی اہمیت اور داعی کی عالی صفات، دین کو پیش کرنے کے اسالیب اور دین کے نام پر اٹھنے والے فتن ،نصوص شریعت میں ملحدین کا الحاد، دینی مسلمات پر مغالطات، ان کے مواقع، اسلام میں اہل قبلہ سے مراد کی تعیین اور ضابطہ کفر واسلام، اصول دین میں ہمیشہ امت کی وحدت اور فروع میں تعددیت کے جواز، ہمارے دینی ثوابت، ان کا اہل تحریف، اہل غلو اور لادینیت کے داعیوں کی طرف سے تحفظ کے طریق پر مفصل مناقشہ ہوا۔قادیانیت کا ظل وبروز کا نظریہ، اسلام کے مسلمات میں قادیانیت کی تحریفات، بنام تجدیدات اور ان کے تحقیقی وعلمی ردود زیر بحث لائے گئے۔ سہ روزہ کورس کے بعد شرکاء میں جن کی تعداد 30 تھی، سرٹیفکیٹز بھی تقسیم کئے گئے۔ اس کے علاوہ عوام میں اصلاحی بیان کا بھی یہاں کی جامع مسجد میں اہتمام کیا گیا۔ پیٹر میرٹس برگ کی جامع مسجد میں ہمارے شیخ اورمربی حضرت مولانا عبدالحفیظ مکیؒ امیر انٹر نیشنل ختم نبوت موومنٹ نے دو بار ماہ رمضان میں اعتکاف کیا۔

اہل مسجد اورحضرت کے احباب کی خواہش پر نماز مغرب کے بعد بیان کا اہتمام کیا گیا جس میں ربانی موضوعات پر عمومی گفتگو ہوئی جبکہ علماء کرام حضرات کے ساتھ علمی موضوعات ہی زیر بحث رہے کہ وہ وارثان نبوت ہیں۔ وہی عوام کی ایمانی تربیت کے بھی ذمہ دار ہیں، پھر ان کا عمل تو ان کے مقام کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ رہے عوام تو ضروریات دین اور مقاصد دین اسلام کا بیان ہی سن لیں تو کافی ہے۔ علماء کرام کے حجت وبرہان سے ادلہ کتاب وسنت کی معرفت اور احکام دین پر وارد شبہات کا جاننا ضروری ہے۔ پھر علماء کرام کے ذمے ہے کہ اہل الحاد کا ان کے انحراف میں رد کریں اور اسلام کے حسین وجمیل چہرے کو انسانیت پر پیش کریں۔ پیٹر میرس برگ کی جامع مسجد میں نمازی حضرات اور عوام کے سامنے ایمان ویقین کی بات ہوئی۔ ایمان کی تقویت ، ایمان کا مؤمن کے لئے قلبی سکون کا باعث ہونا، دین اسلام کا اللہ کی عظیم نعمت ہونا، اسلام کی نورانی تعلیمات اور ان کے دنیوی اور اخروی منافع کا ذکر ہوا، ساتھ ہی ایمان کی ترقی کیلئے ذات حق تعالیٰ کی صفات حسنیٰ بھی موضوع سخن رہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ داعی حضرات کے لئے دعوت ہی باعث سکون واطمینان ہوتی ہے کہ امت محمدیہ جو بنص قرآن خیر امت ہے، اسکی خیریت جس امر سے وابستہ ہے اسے سمجھنا بھی آسان ہے اور سمجھانا بھی۔ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ادائیگی، جسکا اولین فائدہ خود داعی کو ہوتا ہے۔ اسے ایمانی بصیرت اور اپنے دین پر استقامت حاصل ہوگی۔

اسی سے بندئہ مؤمن پر خیر کے دروازے کھلتے ہیں، شر کے دروازے بند ہوتے ہیں، اسے استقامت حاصل ہوتی ہے، اسکے ایمان میں قوت آتی ہے، یہ تمام امور ’’دعوت‘‘ کے ساتھ مشروط ہیں۔ دعوت ہی سے فرد صالح ہوگا، خاندان صالح ہوگا، معاشرہ صالح ہوگا، ملکوں میںخیر پھیلے گی، دعوت سے ہی اس عالم کی بہار ہے اور یہ عالم منور ہوگا۔ہمارے داعی حضرات کو چاہئے کہ وہ عوام کی اصلاح میں ترتیب نبوی کوقائم کریں۔ آنحضرت نے فرمایا لوگوں کو خوشخبری دو انہیں نفرتیں نہ دلاؤ۔ نیز فرمایا آسانیاں پیدا کرو مشکلات نہیں۔

شیئر: