Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تحریک عدم اعتماد، حکومتی ارکان کو اجلاس میں شرکت سے روکنے کا فیصلہ 

وزیراعظم عمران خان کے خلاف جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن نے اپنے اپنے ارکان کے لیے خصوصی حکمت عملی تیار کرلی ہے۔  
دونوں اطراف نے اپنے اپنے ارکان کے تحفظ اور انھیں عدم اعتماد کے حوالے سے پارٹی پالیسی پر عمل پیرا رہنے کے لیے پابند کردیا ہے اور اس حوالے سے باضابطہ طور پر ارکان کو آگاہ بھی کردیا گیا ہے۔  
حکومتی حکمت عملی کیا ہے؟ 
حکمران جماعت تحریک انصاف نے اپنے ارکان کو تحریک عدم اعتماد کے لیے بلائے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں نہ جانے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔  
وفاقی کابینہ کے ایک اہم رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’حکومت نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت اپنے ارکان کو پابند کرنے کا فیصلہ کیا کہ وہ تحریک عدم اعتماد کے اجلاس کے روز ووٹنگ میں حصہ لینے کے لیے ایوان میں نہیں جائیں گے۔‘  
حکومتی ذرائع کے مطابق ’اس کے باوجود اگر کوئی رکن قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت کرتا ہے اور پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو اس کے خلاف ڈیفیکشن قانون یعنی پارٹی سربراہ کے فیصلے سے انحراف کے قانون کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔‘
حکومت کی جانب سے صرف مشیر پارلیمانی امور ایوان میں جائیں گے جو تحریک عدم اعتماد کی رسمی کارروائی کا حصہ بنیں گے۔ 
آرٹیکل 63 اے کیا ہے؟  
آئین میں آرٹیکل 63 اے 2010 میں اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے شامل کیا گیا جس کا مقصد ہارس ٹریڈنگ اور فلور کراسنگ کو روکنا تھا۔  
اس کے تحت اگر کوئی رکن قومی اسمبلی اپنی پارٹی کی بنیادی رکننیت استعفٰی دے یا کسی دوسری جماعت میں شامل ہوجائے یا پارٹی سربراہ کی مرضی کے خلاف ووٹنگ کے دوران غیر جانبدار رہے یا مخالفت میں ووٹ دے تو اس کے خلاف نااہلی کی کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔  
جن معاملات میں پارٹی سربراہ متعلقہ رکن کے خلاف رکنیت ختم کرنے کی کارروائی عمل میں لا سکتے ہیں ان میں وزیراعظم یا وزرائے اعلیٰ کا انتخاب، اعتماد کا ووٹ دینے یا عدم اعتماد کے خلاف ووٹ کرنے اور منی بل یا آئینی ترمیم کے بل پر ووٹنگ شامل ہیں۔  
ان معاملات میں اگر کوئی پارٹی سربراہ کی مرضی کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو پارٹی سربراہ اپنے رکن سے وضاحت طلب کرے گا اور اس کی وضاحت سے مطمئن نہ ہونے کی صورت میں اسے منحرف قرار دے کر تحریری طور پر پریذائیڈنگ افسر اور الیکشن کمیشن کو آگاہ کرسکتے ہیں اور یہی تحریری نوٹس متعلقہ رکن کو بھی بھیجا جائے گا۔  
پریذائیڈنگ افسر دو دن میں معاملہ چیف الیکشن کمشنر کو بھیجیں گے اور اگر وہ دو دن میں معاملہ ریفر نہیں کرتے تو وہ ریفرشدہ ہی سمجھا جائے گا۔
چیف الیکشن کمشنر اسے الیکشن کمیشن کے سامنے رکھیں گے جو 30 دن مین اس پر فیصلہ کرے گا۔  
انحراف ثابت ہو جانے کی صورت میں متعلقہ رکن کی اسمبلی رکنیت ختم کر کے اس کی سیٹ خالی قرار دے دی جائے گی۔  
الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف 30 روز میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جا سکے گی جس کا فیصلہ حتمی ہوگا۔  
اپوزیشن نے کیا منصوبہ بندی کی ہے؟ 
اپوزیشن جماعتوں نے اپنے ارکان کی حاضری یقینی بنانے کے لیے بھی حکمت عملی طے کرلی ہے جس کے تحت تمام ارکان کو مختلف گروپوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔  
مسلم لیگ ن کے ایک اہم رہنما کے مطابق ’ہر گروپ کا ایک کوآرڈینیٹر بھی مقرر کیا گیا ہے۔ اسی طرح ہر گروپ کا الگ واٹس ایپ گروپ بھی تشکیل دے دیا گیا ہے۔‘
’ہر گروپ کے کوآرڈینیٹر کو ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ اپنے گروپ کے ارکان کی حاضری یقینی بنائے گا۔‘
دوسری جانب حکومت یا سرکاری اداروں کی جانب سے کسی بھی رکن کے خلاف اگر کسی قسم کی کوئی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے اور اس رکن کی گرفتاری یا حراست کا کوئی فیصلہ ہوتا ہے تو اس سلسلے میں بھی منصوبہ بندی طے کرلی گئی ہے۔
وہ رکن سب سے پہلے تو اپنے گروپ کے کوآرڈینیٹر کو بتائے گا۔ ضرورت پڑنے پر جمعیت علمائے اسلام ف کے انصار الاسلام رضاکاروں کو سکیورٹی پر مامور کیا جائے گا۔  
اسی تناظر میں اپوزیشن کے اہم قانونی ماہرین بھی تیاری رکھیں گے تاکہ ایسی کسی کارروائی کی صورت میں عدالت سے رجوع کرکے ریلیف حاصل کیا جاسکے۔  
اس کے علاوہ اپوزیشن ارکان کو اپنی اپنی رہائش گاہوں تک محدود رہنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔  

شیئر: