Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تحریک عدم اعتماد:اتحادیوں کےاعلان کے بعد اسمبلی میں نمبرگیم کیا ہے؟

وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے اپوزیشن کو 172 ارکان کی حمایت حاصل کرنا ضروری ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیر کو قومی اسمبلی میں پیش کر دی گئی ہے، جس پر بحث جمعرات کو کرائی جائے گی۔
تحریک عدم اعتماد کے پیش ہونے کے بعد پاکستان کی سیاست میں فوری طور پر ہلچل پیدا ہوئی اور اتحادیوں نے اپنی اپنی پوزیشن واضح کرنا شروع کر دی ہے۔
حکومتی اتحادی پاکستان مسلم لیگ ق کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پر حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان ہوا تو بلوچستان عوامی پارٹی نے اپوزیشن کی حمایت کا اعلان کر دیا۔
تاہم دونوں جماعتوں میں سے ایک ایک رکن نے اپنی پارٹی کے فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔ مسلم لیگ ق کے طارق بشیر چیمہ نے اپنی پارٹی کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے وزارت سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کی وفاقی وزیر زبیدہ جلال نے بھی اپوزیشن کا ساتھ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ 
لیکن حکومتی اتحاد میں شامل ایم کیو ایم پاکستان نے تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا جبکہ جی ڈی اے اور شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ کی حمایت حکومت کو حاصل ہے۔ 

نمبرز گیم کیا کہتی ہے؟ 

وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے اپوزیشن کو 172 ارکان کی حمایت کی ضرورت ہے۔ اس وقت ایوان میں نمبر گیم پر نظر ڈالی جائے تو اپوزیشن اتحاد میں پاکستان مسلم لیگ ن کے 84، پاکستان پیپلزپارٹی کے 56، متحدہ مجلس عمل کے 15، بی این پی کے 4 اور اے این پی کا 1 جبکہ دو آزاد امیدوار شامل ہیں جن کی تعداد 162 بنتی ہے۔ 
عوامی جمہوری اتحاد کے سربراہ شاہ زین بگٹی، بلوچستان عوامی پارٹی کے چار اور طارق بشیر چیمہ کے وزیراعظم کے خلاف ووٹ دینے کے اعلان کے بعد اس وقت اپوزیشن اتحاد کی تعداد 168 ہو چکی ہے۔

اس ساری صورتحال میں ایم کیو ایم پاکستان کی پوزیشن عدم اعتماد کامیاب یا ناکام بنانے میں کلیدی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

تاہم اس اتحاد میں اپوزیشن کے دو ارکان کی عدم دستیابی کا امکان ہے جن میں سے ایک آزاد رکن علی وزیر جیل میں ہیں جب کہ پی پی پی کے رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم بیرون ملک موجود ہیں۔
حکومت نے ان کا نام ناظم جوکھیو کیس میں ای سی ایل میں ڈال رکھا ہے جس کے باعث ان کا بیرون ملک سے واپسی کا امکان کم ہے۔ یوں اپوزیشن کی تعداد 166 بنتی ہے۔ 
اس کے علاوہ حکومتی بنچز پر موجود سندھ سے آزاد ارکان علی نواز شاہ آصف علی زرداری کے ساتھ ملاقات کر چکے ہیں اور انہوں نے اپوزیشن کی حمایت کا اعلان کر رکھا ہے جبکہ گوادر سے آزاد رکن قومی اسمبلی اسلم بھوتانی کے بھی اپوزیشن کے ساتھ رابطے ہیں۔ یوں اپوزیشن اتحاد کی موجودہ صورتحال میں تعداد 168 بنتی ہے۔ 
اس ساری صورتحال میں ایم کیو ایم پاکستان کی پوزیشن تحریک عدم اعتماد کامیاب یا ناکام بنانے میں کلیدی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔
حکومتی اتحادی جماعت ایم کیو ایم پاکستان نے تاحال اپوزیشن کے ساتھ جانے یا حکومت میں ہی رہنے کا کوئی اعلان نہیں کیا ہے۔ اگر اپوزیشن کو ایم کیو ایم کی حمایت حاصل ہوگئی تو تحریک عدم اعتماد کی حمایت میں 175 ارکان کے ووٹ پڑنے کا امکان ہے اور یوں اپوزیشن اتحاد کو پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کے ووٹ کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی اور ایوان میں وزیراعظم اپنی اکثریت کھو دیں گے۔ 

پاکستان مسلم لیگ ق نے تحریک عدم اعتماد پر حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

واضح رہے کہ حکومتی جماعت پارٹی پالیسی کے خلاف جانے کا اعلان کرنے پر 13 ارکان قومی اسمبلی کو شوکاز نوٹسز جاری کر چکی ہے۔ جب کہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ چار ارکان نے پارٹی پالیسی کے مطابق عدم اعتماد پر ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس کے علاوہ ان ارکان کے مستقبل کا فیصلہ سپریم کورٹ نے کرنا ہے۔ اس لیے قومی امکان ہے کہ سپریم کورٹ کی ریفرنس پر رائے آنے کے بعد ان ارکان کی پوزیشن بھی واضح ہو جائے گی۔

شیئر: