Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کی قومی اسمبلی میں نیا قائد حزب اختلاف کون ہوگا؟

اگر فہمیدہ مرزا قائد حزب اختلاف بنتی ہیں تو بے نظیر بھٹو کے بعد وہ دوسری خاتون قائد حزب اختلاف ہوں گی۔ فوٹو: اے پی پی
پاکستان کی قومی اسمبلی کی جانب سے شہباز شریف کو ملک کا نیا وزیر اعظم منتخب کیے جانے کے بعد قائد اختلاف کا عہدہ خالی ہو گیا ہے۔ اگر پاکستان تحریک انصاف مستعفی ہونے کا فیصلہ نہ کرتی تو سابق وزیراعظم عمران خان یا شاہ محمود قریشی قائد حزب اختلاف بن جاتے تاہم ان کے مستعفی ہونے کے بعد ایک بڑا سوال یہ ہے کہ قائد حزب اختلاف کون ہوگا؟ 
قومی اسمبلی کے قواعد کو سامنے رکھیں تو عموماً انتخابات کے فوری بعد وہ جماعتیں جو اپوزیشن نشستوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کرتی ہیں ان میں سے جو بھی اکثریتی تعداد کے ساتھ تحریری طور بھی سپیکر کو آگاہ کرے کہ وہ فلاں رکن کو قائد حزب اختلاف بنانا چاہتے ہیں تو سپیکر اس کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیتا ہے۔ 
اگر پارلیمانی سال کے دوران اپوزیشن ارکان قائد حزب اختلاف تبدیل کرنا چاہیں تو وہ اکثریتی دستخطوں کے ساتھ کسی بھی دوسرے رکن کو نامزد کر سکتے ہیں۔ 
اب جبکہ ایوان میں سب سے زیادہ تعداد رکھنے والی جماعت مستعفی ہو چکی ہے تو قائد حزب اختلاف کے لیے تین آپشنز باقی بچتے ہیں۔
سب سے پہلا آپشن پاکستان تحریک انصاف کے وہ ارکان جو پارٹی فیصلے کے خلاف ایوان سے مستعفی ہونے سے انکار کرتے ہیں اور خود کو ایک پارلیمانی گروپ کے طور پر ایوان میں رکھتے ہیں تو ان کی تعداد پھر بھی کسی بھی دوسری جماعت سے زیادہ ہے اور وہ اپنے کسی ایک رکن کو نامزد کر سکتے ہیں۔
اس حوالے سے سب سے زیادہ فیصل آباد سے تحریک انصاف کے منحرف رکن راجہ ریاض کا نام لیا جا رہا ہے۔ وہ پنجاب اسمبلی میں بھی شہباز شریف کے مقابلے میں قائد حزب اختلاف رہ چکے ہیں۔ 
تحریک انصاف کے منحرف ارکان کے علاوہ جی ڈی اے ایسی جماعت ہے جس کے پاس چار نشستیں ہیں اور اگر وہ اپنی اتحادی تحریک انصاف کے برعکس ایوان میں رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو سابق سپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کا نام قائد حزب اختلاف کے لیے سامنے آ سکتا ہے۔ اگر وہ قائد حزب اختلاف بنتی ہیں تو بے نظیر بھٹو کے بعد وہ دوسری خاتون قائد حزب اختلاف ہوں گی۔ 

پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کا گروپ اگر قومی اسمبلی سے مستعفی نہیں ہوتا تو اپنا قائد حزب اختلاف نامزد کر سکتا ہے۔ فائل فوٹو: اے پی پی

اسی طرح ایم ایم اے سے الگ ہونے والے جماعت اسلامی پاکستان کے رکن عبدالاکبر چترالی کی جماعت کا دعویٰ ہے کہ باقی تمام ارکان کسی نہ کسی صورت حکومت کا ہی حصہ ہوں گے اس لیے ان کے اکلوتے رکن ہی حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کر سکتے ہیں اس لیے انھیں قائد حزب اختلاف بنایا جائے۔ 
پاکستان میں کچھ عرصہ پہلے تک قائد حزب اختلاف کا عہدہ حکومت مخالف عہدہ ہی سمجھا جاتا تھا جو ایوان میں حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے، احتجاج کرنے اور اپوزیشن ارکان کی قیادت تک محدود تھا۔ تاہم 2008 کے بعد قائد حزب اختلاف کو پارلیمان کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنانے کی روایت کے ساتھ ساتھ چیف الیکشن کمشنر، ممبران الیکشن کمیشن، چیئرمین نیب سمیت متعدد آئینی عہدوں پر تعیناتی کے لیے وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان بامعنی مشاورت کو یقینی بنانے کے حوالے قانون سازی کی گئی ہے۔ 
شراکتی جمہوریت کے اس نظریے کے تحت اسمبلی کی مدت مکمل ہونے پر نگران وزیراعظم کے تقرر کے لیے بھی پہلا مرحلہ وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان مشاورت آئینی تقاضا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے مستعفی ہونے کے فیصلے کو اس تناظر میں بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ وہ قومی سطح پر مشاورتی عمل سے مکمل طور پر نکل جائیں گے۔ 

شیئر: