پاکستان کی قومی اسمبلی کی جانب سے شہباز شریف کو ملک کا نیا وزیر اعظم منتخب کیے جانے کے بعد قائد اختلاف کا عہدہ خالی ہو گیا ہے۔ اگر پاکستان تحریک انصاف مستعفی ہونے کا فیصلہ نہ کرتی تو سابق وزیراعظم عمران خان یا شاہ محمود قریشی قائد حزب اختلاف بن جاتے تاہم ان کے مستعفی ہونے کے بعد ایک بڑا سوال یہ ہے کہ قائد حزب اختلاف کون ہوگا؟
مزید پڑھیں
-
تحریک انصاف کے ارکان کے استعفے خود منظور کروں گا: قاسم سوریNode ID: 660391
-
پی ٹی آئی استعفے کیا حکومت کو جلد الیکشن پر مجبور کر سکتے ہیں؟Node ID: 660401
قومی اسمبلی کے قواعد کو سامنے رکھیں تو عموماً انتخابات کے فوری بعد وہ جماعتیں جو اپوزیشن نشستوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کرتی ہیں ان میں سے جو بھی اکثریتی تعداد کے ساتھ تحریری طور بھی سپیکر کو آگاہ کرے کہ وہ فلاں رکن کو قائد حزب اختلاف بنانا چاہتے ہیں تو سپیکر اس کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیتا ہے۔
اگر پارلیمانی سال کے دوران اپوزیشن ارکان قائد حزب اختلاف تبدیل کرنا چاہیں تو وہ اکثریتی دستخطوں کے ساتھ کسی بھی دوسرے رکن کو نامزد کر سکتے ہیں۔
اب جبکہ ایوان میں سب سے زیادہ تعداد رکھنے والی جماعت مستعفی ہو چکی ہے تو قائد حزب اختلاف کے لیے تین آپشنز باقی بچتے ہیں۔
سب سے پہلا آپشن پاکستان تحریک انصاف کے وہ ارکان جو پارٹی فیصلے کے خلاف ایوان سے مستعفی ہونے سے انکار کرتے ہیں اور خود کو ایک پارلیمانی گروپ کے طور پر ایوان میں رکھتے ہیں تو ان کی تعداد پھر بھی کسی بھی دوسری جماعت سے زیادہ ہے اور وہ اپنے کسی ایک رکن کو نامزد کر سکتے ہیں۔
اس حوالے سے سب سے زیادہ فیصل آباد سے تحریک انصاف کے منحرف رکن راجہ ریاض کا نام لیا جا رہا ہے۔ وہ پنجاب اسمبلی میں بھی شہباز شریف کے مقابلے میں قائد حزب اختلاف رہ چکے ہیں۔
تحریک انصاف کے منحرف ارکان کے علاوہ جی ڈی اے ایسی جماعت ہے جس کے پاس چار نشستیں ہیں اور اگر وہ اپنی اتحادی تحریک انصاف کے برعکس ایوان میں رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو سابق سپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کا نام قائد حزب اختلاف کے لیے سامنے آ سکتا ہے۔ اگر وہ قائد حزب اختلاف بنتی ہیں تو بے نظیر بھٹو کے بعد وہ دوسری خاتون قائد حزب اختلاف ہوں گی۔
