Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ٹی آئی استعفے جلد الیکشن پر مجبور کر سکتے ہیں؟

پروفیسر رسول بخش رئیس کے مطابق ’پی ٹی آئی کو اپوزیشن میں بیٹھ کر آگے کا سوچنا چاہیے۔‘ (فوٹو: ٹوئٹر)
 پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی سے استعفے دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ سوموار کو وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں اجتماعی استعفوں کا فیصلہ کیا گیا اور بعد میں قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے اس کا باقاعدہ اعلان کیا۔
پی ٹی آئی رہنماوں کا خیال ہے کہ اجتماعی استعفوں سے حکومت پر جلد الیکشن کے لیے دباؤ بڑھے گا اور عمران خان کے بیانیے کی مقبولیت کے باعث فوری انتخابات کا پارٹی کو فائدہ ہو گا۔
سوموار کو اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما اور سابق وفاقی وزیر مراد سعید کا کہنا تھا کہ استعفی دینا یہ پیغام ہے کہ ہم اس امپورٹڈ حکومت کو نہیں مانتے۔ ان سے پوچھا گیا کہ اس سے آپ کو نقصان بھی ہو سکتا ہے کیونکہ حکومت آپ کی خالی کی گئی نشستوں پر ضمنی الیکشن کروا سکتی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور پارلیمنٹ اب معنی کھو چکی ہے اور عوام کی عدالت میں جانا واحد حل ہے۔
تاہم آئینی ماہرین کے مطابق استعفوں کے باجود نئی حکومت کے قائم ہونے میں رکاوٹ نہیں ہوگی، البتہ اسے اخلاقی اور قانونی جواز کے حوالے سے مشکلات ہوں گی۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار پروفیسر رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ ’اجتماعی استعفوں سے پی ٹی آئی کو زیادہ فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہوسکتا ہے۔‘
’اگر یہ استعفے دے بھی دیں تو پارلیمنٹ چل سکتی ہے اور نئی حکومت ضمنی الیکشن کا اعلان کر کے نظام چلا سکتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی کے لیے وقت آگیا ہے کہ اب صرف سیاست کا نہ سوچیں ملک کا بھی سوچیں۔ اگر عدم استحکام پھیلایا تو ان کو بھی نقصان ہوگا۔ ملک کو بھی معاشی نقصان ہوگا۔‘
پروفیسر رسول بخش رئیس کے مطابق ’پی ٹی آئی کو اپوزیشن میں بیٹھ کر آگے کا سوچنا چاہیے۔‘
’اینٹی امریکہ بیانیے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان میں اینٹی امریکہ انقلاب نہیں آسکتا کیونکہ یہاں سارا نظام امریکہ پر منحصر ہے جس میں بیوروکریسی، بزنس، تذویراتی مفاد اور معاشی ادارے امریکہ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر عمران خان نے عدم استحکام پیدا کیا تو یہ ان کی سیاسی ناپختگی ہوگی۔‘

مستقبل کی اہم تعیناتیاں

یاد رہے کہ حکومت نے آئین کے مطابق چیئرمین نیب، نگراں وزیراعظم سمیت چند اہم تعیناتیاں اپوزیشن کے مشورے سے کرنا ہوتی ہیں۔ اگر اجتماعی استعفے دے دیے جائیں تو ایوان میں موجود پی ٹی آئی کا منحرف دھڑا اپنا گروپ بنا کر اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ سکتا ہے اور پی ٹی آئی کو مکمل طور پر مشاورت کے عمل سے باہر کیا جاسکتا ہے۔
سیاسی تجزیہ کار ارشار عارف کے مطابق ’اجتماعی استعفے دینا پی ٹی آئی کے لیے احمقانہ پالیسی ہوگی اور یہ حکومت کو واک اوور دینے کے مترادف ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سارے ایم این ایز استعفوں پر راضی بھی نہیں ہوں گے کیونکہ کسی ممبر کے لیے الیکشن میں حصہ لینا آسان نہیں ہوتا۔ خاص طور پر جب اس کی جماعت اپوزیشن میں ہو اور حکومتی مشینری اس کے خلاف استعمال ہونے کا خدشہ ہو۔‘
’اس لیے اگر عمران خان نے ایسا فیصلہ کیا تو خدشہ ہے کہ مزید ارکان منحرف ہوجائیں گے اور ان کی پارٹی میں پھوٹ پڑے گی۔‘
ارشاد عارف کے مطابق ’حکومت ان حلقوں میں ضمنی الیکشن کا اعلان کرسکتی ہے اور پھر ضمنی انتخابات کی نوبت آنے سے پہلے ہی چند ماہ میں اسمبلیاں توڑ سکتی ہے۔ ایسے میں استعفیٰ دینے والوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘

کیا الیکشن کمیشن اتنے حلقوں میں ضمنی الیکشن کروا سکتا ہے؟

ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے اجتماعی استعفوں کی صورت میں کیا الیکشن کمیشن 100 کے قریب حلقوں میں ضمنی انتخابات کروانے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ اس حوالے سے سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ ’الیکشن کمیشن مرحلہ وار گروپوں کی شکل میں 50، 60 حلقوں میں ضمنی الیکشن کروا سکتا ہے۔‘
’اس حوالے سے اس کے پاس فنڈز اور صلاحیت موجود ہوتی ہے اور اگر ضرورت پڑے تو اسے اضافی گرانٹ بھی مل سکتی ہے کیونکہ اسے وسائل مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس کی نوبت مشکل ہے کہ آئے کیونکہ حکومت وزیراعظم کی تبدیلی کے بعد اپنا سپیکر لائے گی اور نیا سپیکر استعفوں کو قبول کرنے کے عمل کو طول دے سکتا ہے جیسا کہ 2014 میں ایاز صادق نے کیا تھا، جب انہوں نے پی ٹی آئی ارکان کے استعفے منظور نہیں کیے تھے۔
کنور دلشاد کے مطابق سپیکر کہہ سکتا ہے کہ ’تمام ارکان سے استعفوں کی ایک ایک کر کے تصدیق کرنی ہے پھر ان کے استعفے الیکشن کمیشن کو بھیجنے کے عمل کو طول دیا جاسکتا ہے۔‘

شیئر: