اجلاس میں وزیر دفاع خواجہ آصف، وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ، وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب، وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال اور وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر سمیت مسلح افواج کے سربراہان نے شرکت کی۔
واضح رہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد قومی سلامتی کمیٹی کا یہ پہلا اجلاس تھا جس کی سربراہی وزیراعظم شہباز شریف نے کی۔
اجلاس میں امریکہ میں پاکستانی سفارت خانے کو موصول ہونے والے مراسلے پر بات کی گئی۔ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید نے کمیٹی کو مراسلے کے پس منظر اور مندرجات سے متعلق بریفنگ دی۔
قومی سلامتی کمیٹی نے مراسلے کے مندرجات کا جائزہ لینے کے بعد اپنے گذشتہ اجلاس کے فیصلے کی بھی توثیق کی۔
اعلامیے کے مطابق ’قومی سلامتی کمیٹی کو ملک کی صف اول کی سکیورٹی ایجنسیوں نے ایک بار پھر آگاہ کیا کہ انہیں کسی سازش کے کوئی ثبوت نہیں ملے۔‘
’لہٰذا قومی سلامتی کمیٹی نے مراسلے کے مندرجات کا جائزہ لینے اور سکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ کوئی غیرملکی سازش نہیں ہوئی ہے۔‘
واضح رہے کہ چند روز قبل پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے بھی ایک پریس بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں سازش کا لفظ شامل نہیں ہے۔
انہوں نے غیر ملکی مراسلے کے حوالے سے کہا کہ ’قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں بڑے واضح الفاظ میں لکھا ہوا ہے کہ کیا تھا اور کیا نہیں ہے۔ اعلامیے میں سازش کا لفظ نہیں ہے۔‘
میجر جنرل بابر افتخار نے مزید کہا کہ ’ہمارے حساس ادارے ایسے خطرات اور سازشوں کے خلاف دن رات کام کر رہے ہیں، اگر کسی نے پاکستان کے خلاف کوئی بھی سازش کرنے کی کوشش کی تو ہم اسے کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔‘
’اگر وزیراعظم شہباز شریف نے پارلیمان کی قومی سلامتی کی کمیٹی کا اجلاس بلایا تو مسلح افواج کے سربراہان وہاں جا کر بھی اپنا وہی مؤقف دیں گے جو انہوں نے سابق وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں رکھا۔‘
’اعلامیے میں کوئی نئی بات نہیں‘
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں کوئی نئی بات نہیں تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس اعلامیے نے اور اس قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس نے جو
’اگر ایسا ہی ہونا تھا تو پھر میں وزیراعظم شہباز شریف سے پوچھنا چاہوں گا کہ اس اجلاس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟‘
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’اس اجلاس سے حاصل کیا ہوا؟ اس اجلاس سے آپ نے اپنے لیے مزید مشکلات پیدا کی ہیں۔‘ گذشتہ اجلاس تھا، اس کے اخذ کیے گئے نتائج اور اس کے منٹس کی توثیق کی یعنی اس پر مہر تصدیق ثبت کردی۔‘
خیال رہے کہ گذشتہ ماہ کے آخر میں ہونے والے اجلاس میں قومی سلامتی کمیٹی نے مراسلے پر گہری تشویش کا اظہار کیا تھا۔
کمیٹی نے غیر ملکی عہدیدار کی طرف سے استعمال کی گئی زبان کو غیر سفارتی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’مراسلہ پاکستان کے داخلی امور میں کھلی مداخلت کے مترادف ہے۔‘
قومی سلامتی کمیٹی کے مطابق ’یہ کسی بھی حالت میں ناقابل قبول ہے، اس پر باقاعدہ سفارتی ذرائع سے سخت احتجاج ریکارڈ کرایا جائے گا۔‘