بلوچستان میں چلغوزے کے ’سب سے بڑے‘ جنگل میں لگی آگ بے قابو
بلوچستان میں چلغوزے کے ’سب سے بڑے‘ جنگل میں لگی آگ بے قابو
پیر 16 مئی 2022 15:35
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے سرحدی علاقوں میں چلغوزے اور زیتون کے جنگلات میں لگنے والی آگ پر ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔
محکمہ جنگلات اور ریسکیو ٹیموں کو بلند و بالا پہاڑوں تک رسائی اور تیز ہوا کے باعث آگ بجھانے میں مشکلات کا سامنا ہے اور انہوں نے آگ کی شدت میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ چلغوزوں، زیتون اور پلوس کے جنگلات میں خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان اور بلوچستان کے دو اضلاع موسیٰ خیل اور شیرانی میں چار سے پانچ مختلف مقامات پر لگی ہے جس نے کئی کلومیٹر رقبے پر قیمتی درختوں کو جلا کر راکھ کردیا ہے، جبکہ جنگلی حیات کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
سیکریٹری جنگلات بلوچستان دوستین جمالدینی نے اردو نیوز کو بتایا کہ کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے میں بلوچستان سے ملحقہ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے جنگلات میں آسمانی بجلی گرنے سے لگی جو پھیلتے پھیلتے بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل کے علاقے زمری اور شیرانی کے جنگلات تک پہنچی۔
انہوں نے بتایا کہ زمری کے جنگلات میں درخت نسبتاً کم تھے اور وہاں تک رسائی بھی آسان تھی اس لیے محکمہ جنگلات کی ٹیم نے ضلعی انتظامیہ اور علاقے کے لوگوں کے ساتھ ملکر تین دن بعد آگ پر قابو پالیا۔
تاہم شیرانی میں لگنے والی آگ کو بجھانے کی کوششیں اب تک کامیاب نہیں ہوسکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شیرانی کے جنگلات کوہ سلیمان کے ہزاروں فٹ بلند پہاڑی سلسلے میں پھیلے ہوئے ہیں اور آگ بھی پہاڑی کی بلندی والے حصے میں لگے ہیں جہاں تک پیدل پہنچنا بہت مشکل ہے۔
شیرانی کے ڈویژنل فاریسٹ آفیسر عتیق کاکڑ نے اردو نیوز کو بتایا کہ آتشزدگی مختلف مقامات پر ہوئی ہے اور شیرانی کے علاقے تورغر کے جنگلات میں لگنے والی آگ باقی واقعات سے الگ ہے، یہ آگ بظاہر جان بوجھ کر لگائی گئی ہے، کیونکہ یہاں قبائل کے درمیان تنازعات بھی پائے جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ آگ بھی خیبر پختونخوا ڈیرہ اسماعیل خان سے پھیلتے ہوئے بلوچستان تک پہنچی ہے۔
وہاں کی انتظامیہ متحرک تھی اور ان کے پاس وسائل بھی تھے انہوں نے اپنی حدود میں آگ پر قابو پالیا ہے مگر بلوچستان کی حدود میں اس آگ پر قابو پانے میں موسم کی شدت، تیز ہواؤں، وسائل اورعملے کی کمی، ضلعی انتظامیہ کی عدم دلچسپی اور مقامی لوگوں کی جانب سے تعاون نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آگ پہاڑ کی بلندی پر لگی ہے جہاں تک پیدل پہنچنے میں تین سے چار گھنٹے لگتے ہیں۔
’وہاں تک پہنچتے پہنچتے ہماری ٹیم کی پوری توانائی ختم ہوجاتی ہے، اس جنگلی اور پہاڑی علاقے میں پینے کا پانی بھی دستیاب نہیں، فاریسٹ گارڈز شدید گرمی میں پیاس سے لڑتے ہوئے آگ بجھانے کی کوشش کررہے ہیں، مگر تیز ہواؤں کی وجہ سے آگ تیزی سے پھیل رہی ہے۔‘
عتیق کاکڑ کے مطابق ’ہم نے آگ بجھانے و الے 40 گولے بھی استعمال کئے ہیں مگر کئی کلومیٹر رقبے پر پھیلی آگ پر قابو پانے کے لیے یہ ناکافی ہے اور ہمیں ہیلی کاپٹر کی ضرورت ہے جس کے لیے ہم نے13 مئی کو حکومت کو خط بھی لکھا، مگر تین دن گزرنے کے باوجود ہیلی کاپٹر فراہم نہیں کیا گیا۔
ڈویژنل فاریسٹ آفیسر نے بتایا کہ ہمیں عملے کی کمی کا سامنا ہے، محکمہ جنگلات کے فاریسٹ گارڈذ کی تعداد بھی پچیس سے زائد نہیں۔ ’ضلعی انتظامیہ کے پاس سینکڑوں لیویز اہلکار ہیں ہم نے ان سے مدد کی درخواست کی ہے۔‘
ان کے بقول متاثرہ علاقہ انتظامی طور پر بلوچستان میں آتا ہے مگر یہاں کے چلغوزوں کے جنگلات کی ملکیت خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے رہنے والے قبائل کی ہے۔ اس لیے مقامی لوگ بھی آگ بجھانے میں مدد و تعاون نہیں کر رہے۔
شیرانی میں چلغوزوں کے جنگلات کے تحفظ اور فروغ کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے زراعت و خوراک کے عہدے دار یحییٰ خان موسیٰ خیل نے اردو نیوز کو بتایا کہ شیرانی اور اسے ملحقہ کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے میں چلغوزوں کا یہ دنیا کا سب سے بڑا قدرتی جنگل ہے، پہاڑ کی بلندی پر چلغوزوں، درمیان میں زیتون، جبکہ پہاڑ کے دامن میں پھلائی کے جنگلات ہیں اور یہ سبھی درخت تیزی سے آگ پکڑتے ہیں۔
یحییٰ موسیٰ خیل کے مطابق ان جنگلات میں سلیمان مارخور سمیت نایاب جنگلی حیات بھی پائی جاتی ہیں جنہیں آگ سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ جنگلات اور جنگلی حیات قیمتی اثاثہ ہیں اس کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اور فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔
شیرانی کے علاقے درازندہ کے رہائشی ڈاکٹر یونس شیرانی نے اردو نیوز کو بتایا کہ آگ چار سے پانچ مختلف مقامات پر لگی ہے اور حالیہ سالوں میں اس جنگل میں لگنے والی سب سے بڑی آگ ہے۔
ایک مقام پر آگ سے متاثرہ علاقے کی لمبائی آٹھ کلومیٹر سے بھی زائد ہے، چلغوزوں کے ہزاروں درختوں کو نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر آگ پر بروقت قابو نہ پایا گیا تو یہ جنگل کے زیادہ گھنے والے حصے تک پہنچ سکتی ہے جس کے بعد اس پر قابو پانا ناممکن ہوجائےگا۔
ڈاکٹر یونس شیرانی نے بتایا کہ باقی ملک کے برعکس چلغوزوں کا یہ جنگل حکومت نہیں بلکہ مقامی قبائل کی ملکیت ہے۔ یہاں کے لوگوں کی معیشت کا انحصار چلغوزوں کی پیداوار اور گلہ بانی پر ہے۔ اگر جنگل تباہ ہوگیا تو پہلے سے پسماندہ علاقے کے لوگوں کی زندگی مزید مشکل ہوجائے گی۔
جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی سماجی تنظیم ’اشر تحریک‘ کے رہنما سالمین خپلواک نے آگ پر قابو پانے کے لیے سنجیدہ کوششیں نہ کرنے پر بلوچستان اور وفاقی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ آگ سے اب تک 25 کلومیٹر سے زائد رقبے پر پھیلا جنگل تباہ ہوچکا ہے، چلغوزوں اور زیتون کے ہزاروں قیمتی درخت جل چکے ہیں جس سے مقامی لوگوں کا کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔
سالمین خپلواک کا کہنا ہے کہ ’ہم نے اسلام آباد جاکر پریس کانفرنس کرکے حکام کو اس جانب توجہ دلانے کی کوشش کی مگر اب تک کوئی عملی اقدامات نہیں کیے گئے۔ آگ بجھانے والی ٹیموں کے پاس کوئی ضروری آلات نہیں، انتہائی بلندی تک پیدل پہنچنا انتہائی مشکل ہے، اس لیے ہیلی کاپٹر کے بغیر اس آگ پر قابو پانا مشکل ہے۔‘
’حکومت ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کریں اور آگ لگنے کے واقعات میں اضافے کی تحقیقات کرائیں۔‘
اس جنگل میں رواں سال جنوری میں بھی ڈیرہ اسماعیل خان کی حدود میں آگ لگی تھی۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے خیبر پختونخوا کے وزیر بلدیات فیصل امین کے مطابق پہاڑ اور جنگل میں رہنے والے بعض مقامی لوگ محدود پیمانے پر جھاڑیوں اور درختوں کو آگ لگاتے ہیں تاکہ اپنے جانوروں کے لیے سردیوں میں چارے کا بندوبست کرسکیں۔ بعض اوقات ہوائیں چلنے کی وجہ سے یہ آگ بے قابو ہوکر پھیل جاتی ہے، بظاہر یہ آگ بھی اسی طرح لگی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ریسکیو 1122 نے کئی دنوں کی کوششوں کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان کی حدود میں لگنے والی آگ پر قابو پالیا ہے۔ بلوچستان حکومت کو بھی اپنی حدود میں ریسکیو 1122 جیسی کوئیک رسپانس ٹیمیں تشکیل دینے کی ضرورت ہے تاکہ ایسے ہنگامی حالات میں بروقت امدادی سرگرمیاں شروع کی جاسکیں۔
جبکہ علاقے کے لوگوں کو جنگل میں اپنی ضروریات کے لیے آگ لگانے کی بھی خصوصی تربیت دینی چاہیے تاکہ مستقبل میں ایسے حادثات کا تدارک ہوسکے۔